|

وقتِ اشاعت :   April 13 – 2021

اس ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں اگرآپ اپنے علاقے کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کرنے یا اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پرروشنی ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو گویاآپ شہری صحافی کے طور پر کام کررہے ہیں، آج کے سیل فون اور ٹیبلٹ جدید ترین تصویر اور ویڈیو شوٹ کرنے کی صلاحیتوں سے آراستہ ہیں ، جدید دور کی اس ٹیکنالوجی نے شائقین کی صلاحیتوں کو بڑھا دیا ہے، اب ان کے ہاتھوں میں ایک ایسا آلہ موجود ہے جس سے باآسانی فوٹو اور ویڈیوز بنا کر تیزی کے ساتھ ان میں، ترمیم کرکے اپنی کہانی کو انوکھے انداز میں اور اپنے نقطہ نظر سے سنانے کی اجازت دیتا ہے۔

اسی وجہ سے عام افراد کو میڈیا کے کام میں شامل ہونے، موبائل صحافت کے رجحان کی طرف راغب ہونے، اسٹوریاں بنانے، اور موبائل فلم بنانے کی ترغیب ملتی ہے۔
موجو پاکستان نامی آرگنائزیشن کے بانی ایاز خان کہتے ہیں پاکستان میں موبائل جرنلزم خبروں کی رسائی او راس سے جوڑی کہانیوں کو منفرد انداز میں سامنے لانے کا رحجان تیزی سے بنا رہاہے ایک موبائل جرنلسٹ یا ایک فری لانس جرنلسٹ اپنے اسمارٹ فونز،ٹیبلٹس، ڈیجیٹل کیمرے یا لیپ ٹاپ کو خبروں کے اجتماع، شوٹنگ، براہ راست نشر،تصویری کہانیوں کی اشاعت، ایڈیٹنگ یا خبروں کا اشتراک کرنے کے لیئے استعمال کرتا ہے۔

بنیادی طور پر، یہ کسی بھی شخص کو کیمرہ مین،ایڈیٹر یا دوسری صورت میں، خبروں کے پروڈیوسر،ایڈیٹر اور نشر کا کردار سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے، یہ خبریں کسی نیوز روم میں بھیجی جاسکتی ہیں یا اپنے انٹرنیٹ کے ذریعہ براہ راست سوشل میڈیا پر شئیر کی جاسکتی ہیں،جس سے آپ اپنے مقاصد بہتر طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں۔میں بلوچستا ن میں سماجی کارکن کے ساتھ ساتھ بطور شہری صحافی بھی عرصہ دارز سے پرنٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی و معاشرتی موضوعات پر بات کرتارہاہوں جن میں تعلیم،خواتین،انسدادمنشیات، صحت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی بہتری کے لیے اپنی بہت ساری اسٹوریاں شامل ہیں،جس کو سوشل و پرنٹ میڈیا پر بہت سراہاجاتا رہا ہے۔

ماحولیات سے جڑے مسائل یا پھر موسمی تغیرات کے چیلنجز،ماحول دشمن انسانی رویوں پر ہمارے پورے صوبے خاص کر جیونی سے لے کر گڈانی کے ساحل سمندر تک ان موضوعات پررپورٹینگ،ایڈوکیسی و موبلائیزشن کی بہت ضرورت رہی ہے کیونکہ بلوچستان فطرت و قدرت کے حسن کا شہکاررہاہے جہاں پر آپ کو لمبے لمبے ساحل،سمندری حیات، جنگلات،مختلف اقسام کے جانور،حشرات چرند پرند،پہاڑ،دریا ملتے ہیں،جہاں دنیا بھر کو موسمی تغیرات کا سامنا ہے وہیں پاکستان اور ہمارے صوبے بلوچستا ن کی کمیونٹی کو بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔

ماحولیات سے منسلک ان تمام مسائل کو کس طرح ہائی لائیٹ کیا جائے؟کس طرح حکومتی اداروں کے ساتھ ایڈوکیسی کی جائے تاکہ بہترپالیسی تشکیل دے کر عمل ودرآمد کو یقینی بنایا جائے اور کس طرح کمیونٹی موبلائزیشن کی جائے کہ کمیونیٹز ان موسمی تغیرات کے عمل کو سمجھ سکیں اورکم ازکم نقصانات کا سامنے کرسکیں اور ان سب کے لیے کس طرح موبائل فون،وانٹرنیٹ کے ذریعے ڈیجیٹل ٹولز کو بہتر استعمال کرتے ہوئے صحافت کو فروغ دیا جائے۔ پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے ماحولیاتی صحافت کے حوالے سے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔

جس میں بلوچستان کے دیگر متحرک دوستوں کے ساتھ مجھے بھی جناب طاہر رشید کی دعوت کی بدولت سیکھنے کا موقع ملا جو کہ ایک منفرد لرننگ فل سرگرمی رہی ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے زیر اہتمام جاری دو روزہ ورکشاپ میں پاکستان کے موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل، ان کے تدارک، آئندہ درپیش خطرات کی پیش بندی پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر سندھ، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سمیت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے متنوع ماحول اور اسے لاحق خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف سندھ، بلوچستان کے ریجنل ہیڈ ڈاکٹر طاہر رشید، ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز، موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز، سوشل میڈیا کے ٹرینر حسن ضیاء، عرب نیوز کے نعمت اور معروف صحافی سدرہ ڈار، بلوچستان سے ایوب ترین،شمس الحق ودیگر نے خطاب کیا۔

اور ماحولیاتی صحافت کے حوالے سے اپنے تجربات شیئر کیے ۔ورکشاپ کے پہلے دن ماحولیات سے جڑے مسائل پر سیشن کا انعقاد کیا گیا جبکہ اگلے دن ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ویٹ لینڈ سینٹر کا وزٹ کروایا گیاجہاں شرکاء نے تمرکے پودے لگائے ،اپنے ماحولیاتی ویڈیوز شوٹ کی،ڈاکٹر طاہر رشید ڈبلیو ڈبلیو ایف میں سند ھ و بلوچستان کے ڈائریکٹر ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے اور ڈاکٹر صاحب عرصہ دار سے تحفظ ماحول سرگرمیوں میں شریک رہے ہیں اور ان نے ورکشاپ کے شرکاء سے ماحولیات کے موضوع پر عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے میں صحافیوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے۔

جہاں قدرت نے متنوع نظامِ حیات بخشی ہے، مگر پاکستان میں بے دردی سے شکار کرنا مشغلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ موسمی تبدیلوں کے پیش نظر ہمیں اپنے ما حو لیاتی تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ ماحولیات کو بہتر بنانے اور موسمی تبدیلیوں کے پیش نظر ایسے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ آنے والی نسل صاف اور بہتر ماحول میں زندگی بسر کر سکے، ہماری آنے والی نسلیں ایک پر فضا ء ، آلو دگی سے پاک صاف اور پر امن ماحو ل میں پروان چڑھیں اور موسمی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے نقصانات سے بھی پہلے تیاری کر کے دفاع کریں۔


شبینہ فراز جو کہ پاکستان کی پہلی ماحول دوست لکھاری رہی ہیں جو کہ عرصہ دارز سے بطور ماحول دوست ملکی و غیر ملکی اخبارات و جرائد میں لکھتی آ رہی ہیں،انہوں نے ورکشاپ کے شرکاء کو بتایا کہ دنیا کے دوسرے بڑے انڈس ڈیلٹا میں سمندری پانی کے چڑھنے، زراعتی زمین کی عدم دستیابی، تمر کے بے دریغ کاٹنے سے مچھلی اور جھینگوں کی معدومیت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ تمر کے درخت کو سمندری حیات کیلیے محفوظ پناہ گاہ مانا جاتا ہے۔ ماحولیاتی صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ ایک صحافی کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اردگرد ماحول کے مسائل سے پوری طرح باخبر ہوکر رپورٹنگ کرے۔ پلاسٹک کو ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کاغذ اور کپڑے کے بنے ہوئے بیگز کے استعمال پر زور دیا۔

انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات بھی شیئر کیے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ترجمان سعید نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان میں کل ساڑھے چار لاکھ ہیکٹرز پر تمر کے جنگلات موجود ہوا کرتے تھے۔ ایندھن کی خاطر ان کی لکڑیاں کاٹنے سے ان کی تعداد گھٹ کر محض پچاسی ہزار ہیکٹر رہ گئی تھی، مگر اب مقامی افراد کے تعاون سے ان کی تعداد ڈھائی لاکھ ہیکٹر ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی افراد کو پودے تیار کرنے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پھر ان سے وہ پودے خرید کر لگائے جاتے ہیں۔
اس موقع پر موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز خان نے صحافیوں کو آئندہ وقتوں میں موبائل جرنلزم کی اہمیت سے روشناس کرایا اور اس سلسلے میں کارآمد تکنیک اور ٹولز کے استعمال کی معلومات فراہم کیں۔

انہوں نے بتایا کہ زمانہ تیزی سے ڈیجیٹل ہورہا ہے جس کے نتیجے میں اطلاعات کی فراہمی محض خبروں تک محدود نہیں۔ سوشل میڈیا تک آسان رسائی اور استعمال کی بدولت اب ہر فرد خود ہی رائٹر، کیمرہ پرسن، ایڈیٹر، اینکر اور پبلشر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی کوارڈنیٹر مس حمیرا نے بتایا کہ ماحولیاتی صحافت میں خواتین صحافی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں،ماحول کی بہتری کے لیے کیے گئے انفرادی یا حکومتی اقدامات کو بہتر طریقے سے ہائی لائیٹ کرکے ان کو کوششوں کو سراہا جاسکتاہے اور ماحول دوست رویوں کوبھی فروغ دیا جاسکتاہے انہوں نے بتایا کہ اس فیلڈمیں صحافیوں کی صلاحیتوں کونکھارنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں ماحولیاتی صحافیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکے تاکہ ماحولیاتی مسائل پر زیادہ سے زیادہ رپورٹنگ کی جاسکے اور موسمی تغیرات کے خطرات سے ٹمنٹے کے لیے تیاری کی جاسکے۔


ویٹ لینڈ مینگروز فاریسٹ کے انچارج عبدالرحمن نے بتایا کہ پاکستان میں ویٹ لینڈز کی بہت اہمیت ہے، اس کے پیچھے بیک واٹر چینل اور سامنے سمندر ہے۔ یہ پرندوں اور مختلف اقسام کے جانوروں کی آماج گاہ اور مسکن ہے۔ ورکشاپ کے دوسرے دن کے شرکا ء نے تیمر کی شجرکاری اور سرگرمی کے طور پر ماحولیات کے موضوع پر فوٹوجزنلزم کی تکنیک پر مبنی وڈیو کلپس بنا کر داد حاصل کی۔پاکستان میں ماحولیاتی مسائل پر لکھنے،اسٹوری بنانے اور شیئرنگ کے رجحان کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے ساتھ حکومت بھی موسمی تغیرات کے چیلنجز کا ادراک کرسکیں اور ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدنگی کا مظاہر ہ کیا جاسکے،ملک بھر میں اس طرح کی ٹریننگ کے مواقعوں کے ذریعے صحافیوں کی استعداکاری کی جائے۔

ان کی تعداد کو بڑھایا جائے اور ماحول دوست صحافیوں کا ملکی سطح کا نیٹ ورک قائم کیاجائے جہاں پر تمام قلم کار ان مسائل پر بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ رپورٹینگ و تجزبات کرسکیں، اس سلسلے میں حکومت بھی اس طرح کی غیر سرکای تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے جو SGDs کی بہتری کے لیے حکومت کی معاونت کررہی ہیں تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ماحول بہتری کوششوں کو بھی سراہا جاسکے۔