|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2021

بلوچستان جہاں ہمیشہ سے ظلم و جبر کا راج رہا ہے انگریز استعمار کی دور حکمرانی سے لے کر ہر آنے والے سول وڈکٹیٹر حکمرانوں نے بلوچ ماں دھرتی اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کیلئے اپنی تمام تر جملہ توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ وطن کے فرزندوں کو ظلم و جبر و تشدد کا نشانہ بنایا مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دیئے گئے گرفتاریوں کے بعد غائب کردیا گیا ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو اپنے مادر وطن سے زبردستی بے دخل کیا جاتا رہا قدرتی دولت سے مالا مال دھرتی پر دائمی قبضہ گیری کو برقرار ، جاری آپریشن سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں آگ و خون کی ہولی کا دور دورہ رہا بلوچستان کی تاریخ میں ایسے نڈر سپوتوں کی طویل فہرست ہے۔

جنہوں نے اپنی زندگیاں قوم اور وطن کیلئے وقف کیں ان میں سے ایک فرزند کا نام اسلم جان گچکی ہے جنہیں 9 جون 2002ء کو مشکے کے علاقے میں دو ساتھیوں نصیر احمد محمد حسنی اور پسند خان سمیت شہیدکیا گیا شہید میر اسلم جان گچکی کا تعلق ایک معتبر اور معزز گھرانے سے تھا جو تربت کے علاقے تمپ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی انٹرمیڈیٹ کراچی سے اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا تعلیم سے فارغ ہوکر سرکاری ملازمت اختیار کی محکمہ لوکل گورنمنٹ میں اہم عہدے پر فائز رہے 1973ئمیں جب بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا تو سردار عطاء اللہ مینگل کی جمہوری حکومت برطرف کر دیا گیا نیپ کی قیادت کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند سلاسل کیا گیا بلوچستان میں ایک بارپھر شورش نے شدت اختیار کی تو میر اسلم جان گچکی نے سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر بلوچستان اور بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں دیکھتے ہوئے اور محسوس کرتے ہوئے تمام تر آسودگیوں و آسائشوں کو چھوڑ کر مشکل کھٹن زندگی ترجیح دے کر بلوچستان کے پرپیچ سنگلاخ چٹان کو اپنا ہمسفر بنایا بلوچستان ایک بار پھر میدان جنگ بنا بلوچ عوام کے خلاف آپریشن میں عالمی سامراجی قوتوں کی مدد و حمایت سے بلوچوں کی نسل کشی کی گئی۔

مرکزی حکومت کے ناروا اقدامات کے خلاف شہید اسلم جان گچکی نے مشکے آواران کے علاقوں میں نہایت ہی فعال اور متحرک دوستوں کے ہمراہ بندوق اٹھا کر پہاڑوں کا رخ اختیار کیا بلوچ قومی تحریک کی سوچ اور فکر سے لیس میر اسلم جان گچکی اور ان کے ساتھیوں کی بغاوت اور پہاڑوں پر جانے سے بلوچ دشمن قوتیں سخت پریشان اوربوکھلاہٹ کا شکار ہو ئیں میر اسلم جان گچکی اور ان کے نظریاتی ساتھیوں کے شاندار کارناموں اور کامیاب گوریلا وار حکمت عملی اور ناقابل فراموش جدوجہد نے میر اسلم جان گچکی کو ایک نامور بلوچ مزاحمتی تحریک میں شہزادہ عبدالکریم خان ‘ نواب بابو نوروز خان زہری اور جنرل شیر محمد مری جیسے گوریلا لیڈروں کی صفوں میں میر اسلم جان گچکی نے بھی اپنا نام بنایا میر اسلم جان گچکی بے حد سلجھے ہوئے خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔

ان کے مخالف ان پر بے ایمانی اصولوں پر سودہ بازی کرپشن دروغ گوئی کے تہمت عائد نہیں کرسکے گوریلا وار کے دوران مخالفین ان کے ساتھیوں کا سامنانہ کرسکے بلوچ مزاحمتی تحریک میں میر صاحب کی لازوال خدمات اور قربانیاں ہیں جنہیں رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا انہوں نے جدوجہد میں کبھی بھی اپنے آپ کو کمانڈر نہیں بلکہ بلوچ قومی کاز کے مزاحمتی تحریک کا ادنی سا معمولی سپاہی سمجھا اور فخر محسوس کرتے وہ جھالاوان ‘ سراوان‘ مکران میںکامیاب جنگی حکمت عملی کو آگے بڑھاتے رہے ثابت قدمی مستقل مزاجی اور خندہ پیشانی سے قومی تحریک میںایک ہر دلعزیز رہنما کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کرتے رہے میر اسلم جان گچکی جس انداز میں مزاحمتی تحریک کا نیٹ ورک جال بچھاتے رہے بلوچ قومی تحریک کے خلاف برسر پیکار قوتیں انہیں توڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں قومی تحریک کے دوران جب میر اسلم جان گچکی کی والدہ سخت بیمار تھیں تو انہوں نے اپنے فرزند کو پیغام بھیجا کہ میںشدید علیل ہوں آپ میری تیمارداری کیلئے گھر آجائیںتو میر اسلم جان گچکی نے اپنی والدہ کو مخاطب ہوکر یہ پیغام بھیجا کہ میں لاکھوں بلوچوں کے ما?ں کی حفاظت اور تیماداری کیلئے میدان اور جدوجہد کیلئے نکلا ہوں اس میں آپ جیسی ماں کی ننگ و ناموس ‘ چادر کی حفاظت بھی شامل ہیں یہ اس عظیم سوچ سے لیس انسان کے خیالات تھے۔

جو اپنی بیمار والدہ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں میر اسلم جان گچکی نے افغانستان کے دورے کے موقع پر بلوچ سیاسی پناہ گزینوں کے کیمپوں کا دورہ کیا قومی تحریک کے حوالے سے گفتگو شنید کی کابل قندہار ہلمند اور ماسکو بھی گئے میر اسلم جان گچکی کا بلوچ قومی سیاسی تحریکوں میں بھی اہم رول رہا ہے 1987ء میں بی این وائی ایم کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن نامزد ہوئے 1990ء میں بی این ایم بنا تو میر صاحب مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل تھے بلوچ قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر میر اسلم جان گچکی ہمیشہ اتحاد قومی یکجہتی کے داعی تھے 1996ء میںبی این ایم ، پی این پی اور دیگر قوم وطن دوست پارٹیوں میں انضمام ہوا اور بی این پی کی تشکیل عمل میں لائی گئی تو میر صاحب مرکزی کمیٹی کے رکن نامزدہوئے اور وہ زندگی کے آخری دم تک اس عہدے پر فائز رہے 1997ء کے عام انتخابات میں میر اسلم جان گچکی نے بی این پی کے پلیٹ فارم سے آواران کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی میر اسلم جان گچکی سماجی قبائلی مسائل کو حل کرنے میں ہمہ وقت دلچسپی لیتے رہے اور اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی لوگوں کے غم و خوشی اور خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کررکھا تھا میر اسلم جان گچکی کو بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنما سردار عطاء اللہ خان مینگل سے قریبی رشتہ داری بلوچ مزاحمتی تحریک پر عبور اور تجربہ بی ایس او کو متحد رکھنے بی این وائی ایم، بی این ایم اور بی این پی کے بانی رہنما کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے بلوچ مخالف قومی قوتیں انہیںہمیشہ اپنے راستے کیلئے ایک بڑی رکاوٹ محسوس اور تصور کرتے تھے۔

1997ء میں جب سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں صوبائی حکومت قائم ہوئی تو واحد رکن اسمبلی تھے جنہوں نے وزارت کے عہدے کی خواہش کا اظہارنہیں کیا اور یہ اصولی موقف اختیار کیا کہ میر وزیر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑیگا بلوچ قوم کی عزت و احترام میرے لئے بڑا اعزاز ہے جبکہ اس وقت بعض ارکان صوبائی اسمبلی نے بی این پی کو محض اس لئے تقسیم کیا کہ ہمیں وزارتیں سرعام کرپشن کرنے کی اجازت دی جائے انہیں ذاتی مفاد کی خاطر سردار اختر جان مینگل کی حکومت کو ختم کرنے اور بی این پی کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے لاکھوں بلوچوں کے احساسات جذبات اور ارمانوں کا قتل کیا میر اسلم جان گچکی کو ایک ایسے وقت میں اہلیان بلوچ سے جدا کیا گیا جب پانچ دن کے بعد بی این پی کا دوسرا قومی کنونشن 13تا 15جون 2002کو کوئٹہ میں منعقد ہورہا تھا کنونشن کی تیاریاں عروج پر تھیں پارٹی کارکنوں اور بلوچستانی عوام میں جوش خروش پایا جارہا تھا بلوچ قومی تحریک کے مخالفین کا یہ خیال تھا کہ میر اسلم جان گچکی کی موجودگی میں منعقدہ قومی کنونشن کی بلوچ قومی ریاست کی تشکیل و سیاست اور تحریک پر حکمت عملی ایک نیا رخ متعین کریگا اس جو ش و جذبے اور سیاسی جمود کو توڑنے خوف وہراس پھیلانے اور پارٹی قیادت کو سخت فیصلے سے روکنے اور خبردار کرنے کی خاطر میر اسلم جان گچکی اور ان کے ساتھیوں کوشہید کرکے بلوچ قوم کو ایک عظیم لیڈر سے محروم کر دیا گیا میر اسلم جان گچکی کی مزاحمتی سیاسی اور سماجی زندگی میں عملی کردار اور جدوجہد ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں میر صاحب کی عملی جدوجہد کا دائرہ اور محور آواران ومکران نہیں تھا پارٹی کے وہ واحدلیڈر تھے جو پورے بلوچستان میں مقبول تھے وہ صرف اور صرف پارٹی کا نہیں پورے بلوچ قوم کا قیمتی اثاثہ تھے۔
میرا اسلم جان گچکی جلسوں میں اپنی تقریر کا آغاز آزاد جمالدینی سے اس شعر سے شروع کرتے تھے(ماہ عہد کناں پیمان کناں آزاد بلوچستان کناں )14اور 15اپریل 2002ء کو اپنی زندگی کے آخری جلسہ نوشکی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی اور جمہوری جدوجہد سے ہم اپنی قومی بقاء اور سلامتی کی جنگ نہیں جیت سکتے لہذا اب بلوچ اپنی پرانی ڈھاڈری اٹھاکر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر قوم و وطن کی حفاظت کرسکتے تھے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سنگلاخ چٹان پہاڑوں نے ہمیشہ اپنی آغوش میں آنے والے قومی ننگ و ناموس کی حفاظت کی راہ پر نکلے ہوئے فرزندوں کو پناہ میں عزت سرافتخاری دے کر مادر وطن کی خلاف قوتوں کو بھاگنے پر مجبور کیا یہی پہاڑہمارے قومی ننگ و ناموس اور غیرت کے نشان کی مثالی علامات ہیں شہید میر اسلم جان گچکی جیسے نڈر سپوت بلوچ قومی کاز کیلئے صدیوں میں پیدا نہیں ہونگے۔

لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ بی این پی کی قیادت اور کارکنوں کو کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے پارٹی کے سیکرٹری جنرل شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ، شہید نواب امان اللہ خان زہری ‘ شہید میر نور الدین مینگل ، شہید سلام ایڈووکیٹ، شہید میر جمعہ خان رئیسانی ‘ شہید ملک نوید دہوار ‘ شہید ناصر جان لانگو ‘ ملا محمد یوسف بلوچ ‘ حاجی لیاقت مینگل ‘ حاجی عطاء اللہ محمد زئی ‘ نواب الدین نیچاری ‘ کمسن عاصمہ سلام سمیت پارٹی کے اب تک 95کے قریب دوستوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سے راستے سے ہٹایا گیا تاکہ بی این پی کی موثر آواز کو دبایا جاسکے بی این پی دو دہائیوں سے ریاستی مظالم کے زیر عتاب ہے اور بی این پی کو زیر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

شہید اسلم جان گچکی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے شروع ہوکر جب پارٹی کی شہید وطن نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے خلاف اسمبلیوں سے احتجاجاً مستعفی ہوکر بلوچستان میں جمہوری انداز میں سیاسی مزاحمتی طرز جدوجہد میں تیزی اور شدت لاکر حکمرانوں اور ان کے گماشتوں کے مظالم کے خلاف جس انداز میں آواز بلند کی ان صداؤں کو دنیا کے کونے کونے میں توجہ اور پذیرائی حاصل ہوئی اس دوران پرویز مشرف نے ایک وقت میں بی این پی پر نیپ کی طرزپر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا اصولی فیصلہ کیا تو اس کے نتیجے میں بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل ‘ پارٹی کے سیکرٹری جنرل و دیگر مرکزی کابینہ ، سی سی کے اراکین ، تمام ضلعوں کے عہدیداروں کو انگریز کے دور حکومت کی بدنام زمانہ 16اور تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا گیا حکمرانوں گماشتوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ بی این پی بلوچ قوم کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے۔

جو حقیقی معنوں میں لاکھوں بلوچوں کے حقیقی موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے جدوجہد میں مصروف عمل ہے بی این پی نے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی بلوچ فرزندوں کی مارواء آئین وقانون گرفتاریوں غائب کرنے سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ ‘ مذہبی انتہاء پسندی ‘ چادر وچاردیواری کے تقدس کی پامالی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں گوادر میگا پروجیکٹس پر بلوچ عوام کی مرضی و منشاء و رائے کو شامل کئے بغیرچین کے حوالے کیا جانا سیندک و ریکوڈک چمالانگ اور بلوچ کی دیگر معدنیاتی و قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے کے خلاف معاہدے افغان مہاجرین کی غیر قانونی آبادکاری جیسے منصوبوں کی تکمیل اور بلوچوں کو اپنی دھرتی سے بے دخل کرنے اور اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش سمجھتے ہوئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں مظالم کا سامنا کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔

بی این پی نے سیاسی و جمہوری انداز میں بلوچستان اور بلوچ قوم کے اجتماعی‘ معاشی‘معاشرتی‘ سیاسی حقوق کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں پارٹی نے پارلیمنٹ کے استعفوں سے لے کر سخت گیر سیاسی جلسے جلسوں تاریخی لانگ مارچ گوادر تک کوئٹہ کا اعلان ‘ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ‘ شہادتیں گرفتاریاں اقوام متحدہ یورپی یونین انسانی حقوق کمیشن کے علمبردار تنظیموں کے نمائندوں کو بلوچ وطن کی تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا جانا سپریم کورٹ میں چھ نکات کے ساتھ پیش ہوجانا شامل ہیں یہاں کے وسائل پر بالادست قوتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں آنے والی تبدیلیوں چیلنجوں اور دنیا میں بڑھتی اور ابھرتی ہوئی سیاسی اقتصادی بحرانوں تضادات اور کشمکش میں بلوچ خطہ اہمیت کا حامل ہوگااور دنیا کی نظریں بلوچ خطے کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں۔

ایسے حالات میں بی این پی جوکہ بلوچ قومی تحریک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے شہداء کی قربانیوں کو عملی جامعہ پہنانے آنے والی سازشوں کو ناکام اور مقابلہ کرنے کیلئے پارٹی کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نظریاتی بنیادوں طور پر منظم و متحرک کرنے اور کارکنوں کو ہر قسم کی تبدیلیوں اور چیلنجو ں سے پہلے باخبر رکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر پارٹی میں ڈسلپن اور اداروں کو مضبوط و فعال کرنا ہوگاتب بلوچستان کی جملہ حقوق اور جغرافیہ کی حفاظت ممکن ہے شہید میر اسلم جان گچکی اور ان کے ساتھیوں کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بہتر ذریعہ یہ ہے کہ سچائی ‘ ایمانداری سے قوم و وطن کی خدمت کو اولیت دے کر ہی شہداء کے ارمانوں کو پایہ تکمیل پہنچایا جا سکتا ہے
٭٭٭