|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2024

سپریم کورٹ میں ججز خط از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے جو براہ راست نشر کی جارہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، ہدف ایک ہے، آزاد عدلیہ سب کا مقصد ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان بینچ کا حصہ ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت پریقین رکھتا ہوں، ہدف ایک ہے، آزاد عدلیہ سب کا مقصد ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے بعد بھی یہ معاملہ نہیں رکا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مداخلت تو ہورہی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی۔

اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ ابھی تک نہیں ملا، جواب داخل کرنے کیلئے تحریری حکمنامہ وزیراعظم کو دکھانا ضروری ہے، کیس کے حوالے سے وزیر اعظم آفس سے رابطہ کیا ہے، وزیر اعظم آفس سے ہدایات کیلئے کل تک کا وقت دیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم 45 منٹ لیں گے، دلائل مکمل کرلیں گے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکرٹری کے درمیان روسٹرم پر اختلاف

سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کیلئے آدھا گھنٹہ مانگا۔ شہباز کھوسہ نے کہا کہ ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹوکمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ پتا نہیں کیوں اپنی تشہیر چاہتے ہیں۔ جس پر ایڈیشنل سیکرٹری سپریم کورٹ بار شہبازکھوسہ نے جواب دیا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس عدالت میں منتخب بار کونسلز کو ترجیح دیں گے، آزاد عدلیہ ہدف ہے یقین ہے آپ سب ایک طرف ہیں اس لئےبحث کی گنجائش نہیں، اگر کوئی کیمرے پر کچھ کہنا چاہتا ہے تو یہ الگ بات ہے، جب ہدف ایک ہےکوئی سیاسی، متنازع بات نہیں تو بسم اللہ کیجئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل کو پڑھنے میں دشواری پر جسٹس اطہرمن اللہ نے خود نوٹ پڑھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نوٹ میں لکھا ہے وفاقی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ ججز نے نشاندہی کی مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

اس موقع پر جسٹس نعیم اخترافغان بولے یہ بات اصل آرڈر کے پیرا گراف پانچ میں بھی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس پیراگراف میں صرف تجاویز مانگنےکی بات تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کوئی خفیہ ادارہ جواب دینا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کرا سکتا ہے، سپریم کورٹ نے وکلاء تنظیموں کو بھی تحریری جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔

گزشتہ سماعت میں صوبائی ہائیکورٹس سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تجاویز جمع کرائیں، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ سماعت پر یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، ہم عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کریں گے، اگر مداخلت نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔طے کر لیں کسی طاقت، ایجنسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *