|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2021

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا،انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایوان سے واک آوٹ کیا۔وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل پیش کی گئی جسے کثرت رائے سے منظورکر لیا گیا، تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔پیپلزپارٹی کی جانب سے ووٹوں کی گنتی پر اعتراض اٹھایا گیا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرائی، اس دوران ایوان میں شدید بدنظمی پیدا ہو گئی، اپوزیشن ارکان ،اسپیکر ڈائس کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور نعرے بازی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ایوان کا ماحول گرم ہوا تو سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے حصار میں لے لیا،حکومتی ارکان وزیراعظم کے گرد جمع ہو گئے۔اپوزیشن ارکان نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے چلے گئے اور حکومت نے مرحلہ وار بلز کی منظوری کا عمل جاری رکھا۔

پارلیمنٹ نے کلبھوشن اورعالمی عدالت انصاف سے متعلق بلز کی منظوری دی، کلبھوشن اورعالمی عدالت انصاف سے متعلق بل وزیرقانون نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اینٹی ریپ انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل بل 2021 اور انسداد زنا بالجبر تحقیقات و سماعت بل 2021 کی بھی منظوری دے دی۔ ملیکہ بخاری کی ترامیم کو بل کاحصہ بنا لیا گیا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل، آئی ووٹنگ اور ای وی ایم سے متعلق بل، انتخابی اصلاحات سے متعلق ترمیمی بل 2021 اور انتخابی دوئم ترمیمی بل بھی کثرت رائے سے منظور کر لیے گئے۔ انتخابی اصلاحات کا بل بابراعوان نے پیش کیا۔ مشترکہ اجلاس میں اسلام آباد میں چیریٹی رجسٹریشن اینڈ فیسلی ٹیشن بل، نیشنل کالج آف آرٹس انسٹی ٹیوٹ بل، مسلم فیملی لاء کے 2 بل، حیدر آباد انسٹی ٹیوٹ ٹیکنیکل مینجمنٹ سائنس بل، کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ کمپنیز ترمیمی بل 2021 اور فنانشل انسٹی ٹیوشن ترمیمی بل 2021 بھی منظور کر لیے گئے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کمپنیز ترمیمی بل 2021، نیشنل ووکیشنل ٹیکنیکل اینڈ ٹریننگ کمیشن ترمیمی بل، پاکستان اکادمی ادبیات ترمیمی بل 2021 اور پورٹ قاسم اتھارٹی ترمیمی بل 2021 بھی منظور کرلیے گئے ۔اس سے قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ تحریک کی منظوری کے لیے 222 ارکان کا ہونا ضروری ہے۔قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ارکان کو داد دیتا ہوں کہ وہ حکومتی دباؤ میں نہیں آئے، حکومت اور اتحادی بلز کو بلڈوزکرانا چاہتے ہیں، حکومت کے اتحادی انکاری تھے تو اجلاس کو مؤخر کیا گیا۔ الیکشن سے پہلے ایوان اور 22 کروڑ عوام دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں، یہ سلیکٹڈ حکومت اب عوام کے پاس ووٹ کے لیے نہیں جا سکتی کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ عوام ان کو ووٹ نہیں دیں گے، مشین کے ذریعے یہ سلیکٹڈ حکومت اپنی معیاد کو طول دینا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ زبردستی قانون سازی کی حکومت کی کوشش کو عدالت میں چیلنج کریں گے، اس قانون سازی کے ذریعے بیرون ممالک پاکستانیوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے عوام کی توہین کی جا رہی ہے۔

بہرحال بلز کے متعلق اجلاس سے قبل یہ خدشات موجود تھے کہ حکومت کومشکل کا سامناکرناپڑے گا کیونکہ اس سے قبل بھی اتحادیوں نے اپنے تحفظات کااظہار کیا تھا بعدازاں پی ٹی آئی نے اپنے اتحادیوں کو منوالیااور اس طرح سے حکومت بلز کو منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔ اپوزیشن نے سپریم کورٹ جانے کافیصلہ کیا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں اپوزیشن مشترکہ طور پر منظور شدہ بلز کو چیلنج کرے گی اور پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے بلز کو قانونی طریقے سے کس طرح سے چیلنج کرکے روکا جاسکتا ہے فی الحال کہنا قبل ازوقت ہوگا ۔ البتہ پی ٹی آئی بلز کی منظوری میں کامیاب ہوگئی اور اپوزیشن کو اس میں شکست کا سامنا کرناپڑامگر اتحادیوں کے تحفظات اور خدشات جن بنیاد پر تھے ان پر کوئی خاص وجہ سامنے نہیں آئی کہ انہیں کس طرح قائل کیاگیا کیونکہ ان کے تحفظات بھی یہی تھے کہ 2018ء کے انتخابات کے دوران ان کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا تھا جو اپوزیشن کا ہی مؤقف ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ الیکٹرنک ووٹنگ مشین کے ذریعے شفاف انتخابات کا عمل یقینی ہوسکتا ہے اس پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ مشین کی تیکنیک کے ذریعے دھاندلی کے بڑے پیمانے پر خدشات موجود ہیں اب مستقبل میں ہونے والے انتخابات کے نتائج ہی خدشات اور تحفظات دور کرنے یا سوالات اٹھانے کا تعین کریںگے۔