|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2021

یہ کامیاب ریلی بلوچ قوم پرست رہنما یوسف مستی خان کی قربانی کا ثمر ہے۔قوم پرست رہنما یوسف مستی خان کی عاجزی نے گوادر دھرنے کو طاقت سے بھرپور ایک نئی تازگی بخشی ہے، مستی خان کی گرفتاری نے اس کارواں کو منزل کے اور زیادہ نزدیک کر دیا،اس نے اپنی بہادری سے یہ ثابت کر دیا کہ کینسر جیسے موذی مرض کے باوجود وہ بلوچستان کے دکھ میں کٹ مرنے کو تیار ہے۔دھرنے پہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس گردی نے آج کی ریلی میں آکسیجن کا کام کیا ہے، یہی پولیس جو کل شام لاٹھی اور بندوق لے کر کھڑی تھی آج ریلی میں شرکت کرنے کیلئے دھرنا گاہ میں بیٹھ چکی ہے۔

مستی خان کی اس قربانی نے قوم کو بیدار کر دیا ہے۔اس نے دس منٹ کی تقریر میں لاڈلے کی ستر سالہ شرارتیں بیان کر کے چوہدری کا سارا کچا چٹھا بیا ن کردیا۔دھرنے میں بلوچ قوم پرست رہنما یوسف مستی خان نے اپنی تقریر میں اس تحریک کو آنکھیں اور زبان دی ، اس نے اس بھید سے پردہ ہٹا دیا، اور لوگوں کو یہ سمجھایا کہ شیر کا ماسک پہننے اور جنگل کے شیر میں بہت فرق ہوتا ہے۔مستی خان سے پہلے دھرنے کا ہر منظر ماردھاڑ ،ڈائیلاگ اور ایکشن سے بھرپور تھا، پہلی بار ایک بزرگ رہنما نے دھیمے لہجے میں نہایت سنجیدگی سے بولان کے اس درد کو یوں بیان کر دیا کہ پہاڑ سارے رو پڑے۔

اسکی نرم گفتار دلوں کو یوں گرما گئی جو لوگ مخالف سمت بڑھ رہے تھے وہ بھی اس قافلے میں شامل ہوگئے اسکی عقاب جیسی آنکھوں میں آس کا ایک سورج چمک رہا تھا جسکی روشنی میں حوصلوں کے پرندے اڑ رہے تھے۔یوسف مستی خان نے جو باتیں دھرنے پہ کہیں وہ تاریخ کی کتابوں میں پہلے سے درج ہیں، مستی خان نے صرف اپنی زبان سے اس تاریخ کو دہرایا ۔فورسز کی طرف سے اس بزرگ ہستی کی گرفتاری سچائی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔دھرنے والوں کیلئے یوسف مستی خان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ خود رو تحریکیں زیادہ دیر نہیں چلتیں،’’ بلوچستان کو حق دو‘‘ تحریک کو ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ دیا جائے تاکہ پورے بلوچستان میں اس کی روشنی پھیل سکے۔