|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2021

وہ مستقبل کی لیڈر تھی یہی خوف ان کے قتل کا سبب بنا۔ بانک اگر زندہ رہتی تو بلوچ تحریک کے پاس ان کی موجودگی میں ایک توانا اور مضبوط اعصاب کے مالک لیڈر موجود ہوتی۔ ان کی شہادت سے بہرحال قیادت کا ایک خلا پیدا کیا گیا۔

بانک کریمہ ایک نام نہیں دراصل ایک مکمل تحریک ہے، ایک چھوٹی سی لڑکی نے کم عمری میں ایک بڑے تحریک کی بنیاد رکھی اور اپنی عمر کے ساتھ اسے پروان چڑھائی۔اپنی غالباً سولہ سالہ زندگی میں ایک چھوٹی سی لڑکی نے بی ایس او جیسی مدر آرگنائزیشن کو تک لیڈ کیا لیکن کبھی ایک لمحے کے لیے اس کے سیاسی و ذاتی کردار و عمل پر مجال ہے کہ آج تک کوئی انگلی اٹھاسکے۔
کوئی سولہ سترہ برس قبل اطلاع آئی تمپ سے کچھ لوگ تربت احتجاج کے لیے آرہی ہیں، جب وہ آئیں تو بیشتر نوجوان لڑکیاں تھیں ان کی قائد کریمہ تھیں، ہاں وہی کریمہ بلوچ جنہوں نے بعد میں بلوچ سیاست میں ہلچل مچادی۔ اپنے ایک رشتہ دار کی بازیابی کے لیے احتجاج کناں کریمہ بلوچ اس وقت بی ایس او کی ممبر نہیں تھی مگر انہی دنوں جب وہ مسلسل احتجاج کے لیے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ تربت احتجاج کے لیے آتی گئیں تو وہ بی ایس او کی رکن بنی۔
کریمہ بلوچ، میرے لیے اسے شہید لکھنا بہت مشکل ہے ایک ماورائی کردار کی مانند رہی، اس کے اندر طاقت تھی وہ مضبوط اعصاب کی مالک تھی، پہلی بار اپنی کچھ ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے تمپ تا تربت پیدل لانگ مارچ کیا، راستے میں ان کے قافلے کا گھیراؤ ہوا، ان پر لاٹھی چارج کی گئی، تشدد سہتی ہوئی وہ آخر کار تربت پہنچ گئی اور ثابت کیا کہ وہ غیر معمولی انسان ہی نہیں مستقبل کی لیڈر ہیں۔
بی بی سی نے انہیں سو بااثر شخصیات میں شامل کرکے ثابت کیا کہ وہ عام نہیں بلند پایہ شخصیت ہیں، جب بی ایس او آزاد پر افتاد آن پڑی، کارکنان اغوا، قتل اور مسخ شدہ لاش کی صورت پھینکے جاتے رہے تب بھی وہ اکیلی میدان میں کھڑی رہی۔ آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی، سر نہ جھکی۔
جب بانک بی ایس او آزاد کو لیڈ کررہی تھیں، حالات ہر طرف سے ناموافق تھے مگر آپ نے دلیری اور بہادری سے مقابلہ کرکے تنظیم کی ساکھ پر آنچ نہ آنے دیا۔
وہ بہادر شیرنی بنی کارکنوں کے درمیان رہ کر ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں، ان کی سیاسی زندگی میں روایتی عیوب مٹ گئے تھے۔ بی ایس او کو منظم رکھنے کے لیے کریمہ بلوچ موٹر سائیکل پر سوار ہوتیں، یہ کبھی سوچا نہیں کرتی کہ وہ ایک نیم قبائلی سماج کی لڑکی ہے، اس پر الزام لگیں گے، ان کی ذات پر کیچڑ اچھالے جائیں گے، اگر ایسا سوچتی تو بھلا لیڈر کیسے بنتی تب ہی آپ نے ایسی بے ڈھنگی روایات کا خیال کیے بغیر بلوچ روایات کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔
ایک جانب ریاستی اداروں کی قہرسامانیاں تھیں تو دوسری طرف مخالف سیاسی جماعتوں کی زہر آلودگیاں، تیسری جانب وہ دوست جو بظاہر تحریک سے منسلک تھے لیکن اب وہ مخالفت پر کمربستہ ہوکر دشمنی کی خد تک کردار کشی کررہے تھے۔ انہوں نے سائنٹیفک انداز سیاست کا نعرہ لگاکر کردار کشی کی انتہا کردی، گالیاں بکیں، غلیظ زبان استعمال کی، نفرت انگیزی میں اس حد تک گئے کہ دشمن کی توبہ لیکن سامنے معمولی شخص نہیں کریمہ بلوچ پہاڑ بنی کھڑا رہی ،کسی کو زبان سے کچھ نہ کہا مگر سب کچھ کہہ ڈالا۔ وہ غارت گئے ناکام ہوئے اور کریمہ ایک الگ شان سے سرخرو ٹہرے۔
کریمہ بلوچ نے کتنا عرصہ سیاست کی، زیادہ سے زیادہ کوئی سولہ سترہ برس، چاروں اور مخالفین تھے، موقع کی تلاش میں تھے کہ معمولی سا کمزوری ہاتھ لگے لیکن 21 دسمبر تک کسی کو کچھ ہاتھ نہ آیا اس لیے آج تک کوئی بھی ان کے خلاف ایک معمولی کمزوری ثبوت کے بطور پیش نہیں کرسکا۔
مزاحمت کی علامت، جدوجہد کا نشاں، اس نہتی لڑکی نے نہ صرف سیاست کی بلکہ ایک نیم قبائلی سماج میں عورتوں کو منظم کرکے سیاست کی طرف لانے کی کامیاب کوشش کی۔ آج جب بلوچ سیاست میں ہزاروں لڑکیاں متحرک دکھائی دیتی ہیں ان سب کا رول ماڈل بانک کریمہ بلوچ ہیں۔
بانک کریمہ کی بدولت بلوچ سماج کی فرسودہ روایات توڑ کر لڑکیاں سیاست کے خار زار میں متحرک ہوئیں اور مزاحمت کرتی بلوچ سیاست کو لیڈنگ رول دے رہی ہیں۔ تمپ سے نکل کر پورے بلوچ سماج کو متاثر کرتی اس لڑکی نے دراصل بلوچستان کو متاثر کیا بلکہ بلوچ تحریک کو متاثر کیا۔
بانک کریمہ ایک لافانی کردار، بہادر لڑکی، بے مثال قائد، شفیق بہن ،ملنسار ماں کے درجہ کی حامل خاتون جس نے بطور لیڈر بلوچستان میں بی ایس او کے ہر زون نہیں تو بیشتر زونز کا دورہ کیا، ہر کارکن سے تعلق اور واسطہ رکھا، قریباً ہر کارکن سے ان کی دعا سلام رہی، سب کو ایک آنکھ سے دیکھا۔ میری معلومات کے مطابق شاید غلط ہوں بی ایس او کے تین ایسے چیئرمین رہے ہیں جنہوں نے تمام بلوچستان یا بلوچستان کے بیشتر حصوں میں تنظیمی یونٹ اور زونز کا دورہ کیا، ان میں ایک حبیب جالب دوسرا شہید سنگت ثناء بلوچ تیسرے بانک کریمہ ہیں۔
بانک کریمہ میں بلا کی استقامت تھی، تنظیم اور تنظیمی اداروں پر ان کی گرفت بے مثال تھی، ان میں صبر و برداشت یگانہ تھی، سب کی سنتی، اپنی رائے دیتی اور فیصلہ سازی میں جو تحریک اور تنظیمی مفاد میں بہتر سمجھتی بلا جھجک وہی کرتی۔
وہ زمانہ جب بی ایس او کو اپنوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا تھا، بغاوت کرکے تنظیم کو توڑنے کی سازش سے بڑھ کر عملی کوشش کی جارہی تھی حتیٰ کہ اپنے تہیں تنظیم کا الگ دھڑا بنانے کا اعلان کیا جاچکا تھا۔ یہ بانک کریمہ تھی جنہوں نے سب کے سامنے کھڑے رہ کر حالات کا مقابلہ کیا، تنظیم کو بچایا، کارکنوں کو حوصلہ دیا ان کے ساتھ رہا اور کامیابی سے باغی گروہ کو نابود کردیا۔ ان کی جگہ اور کوئی ہوتا تو شاید بی ایس او آزاد کی تاریخ میں الگ دھڑے کا اضافہ ہوچکا ہوتا کیونکہ سامنے جو لوگ تھے وہ بزعم خود تحریک کے کرتا دھرتا تھے ۔وقت و حالات نے ثابت کردیا کہ وہ کون تھے کیا چاہتے تھے لیکن اس کامیابی کے پیچھے بانک کریمہ کی شبانہ روز کی کوششیں ،سخت محنت ،انتہا کا حوصلہ اور بلا کی برداشت شامل تھی۔
بلوچستان سے کینیڈا کے سفر اور بعد میں بھی ان پر الزام لگانے والے کردار باز نہ آئے لیکن آپ نے تحریک کی خاطر شہادت کا رتبہ پاکر ثابت کردیا کہ وہ وطن کی حقیقی بیٹی تھی، بلا شبہ بانک کریمہ ایک منظم تحریک تھی اور وہ تحریک اپنی ذات میں پورا بلوچستان تھی ۔ یہ ہے کہ بلوچستان ہر بلوچ کے لیے ماں جیسی قدر رکھتی ہے، کریمہ ماں ہے اور ماں بلوچستان ہے اس لیے کریمہ بلوچ زندہ ہیں زندہ رہینگی۔