|

وقتِ اشاعت :   December 28 – 2021

وفاقی وزارت قومی صحت نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران تسلسل کے ساتھ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔یہ اعتراف وفاقی وزارت قومی صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریری جواب میں کیا گیا ہے۔وفاقی وزارت قومی صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں ادویات کی قیمتوں میں 2.7 سے 3.9 فیصد اضافہ ہوا۔

وفاقی وزارت صحت نے تحریری جواب میں بتایا کہ 2019 میں ادویات 7 سے 10 فیصد تک مہنگی ہوئیں جب کہ2020 میں ادویات کی قیمتوں میں 5.1 سے 7.3 فیصد اضافہ ہوا۔وفاقی وزارت قومی صحت کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت کیا گیا۔وزارت قومی صحت نے تحریری جواب کے ذریعے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ کورونا کے علاج کے لیے درکار انجکشن کی قیمت میں تین مرتبہ کمی ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی میں جمع کرائے جانے والے تحریری جواب کے تحت 22 اکتوبر 2020 میںانجکشن کی قیمت 9244 روپے تھی، 7 دسمبر 2020 کو قیمت کم ہو کر 5680 روپے ہو گئی اور 22 ستمبر 2021 کو انجکشن کی قیمت 3967.34 روپے ہو گئی۔ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر پی ٹی آئی کے اراکین اپنی ہی جماعت پر برس پڑے ۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ اگر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا توادویات کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔ اس سے قبل رواں سال اپریل کے مہینے کے دوران پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے صوبائی حکومتوں کو خط لکھ کر کہا ہے کہ سرکاری اور نجی اسپتالوں کے ڈاکٹر برانڈڈ ادویات کا نام لکھنے کی بجائے دوا کا فارمولہ تجویز کیا کریں۔ پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے یہ خط وزیر اعظم ڈیلیوری یونٹ کی ہدایت پر لکھا تھا۔ ڈائریکٹر فارمیسی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ڈاکٹر عبدالرشید کی جانب سے لکھے گئے خط میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر کے سیکریٹریز صحت اورچیف کمشنر اسلام آباد سے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر کسی برانڈڈ دوائی کا نام تجویز کرنے کی بجائے عام فارمولہ تجویز کریں۔خط کے متن کے مطابق وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل پر شہریوں نے شکایت کی ہے کہ سرکاری اور نجی اسپتال کمپنیوں کی مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کے اس عمل سے ملک کے معاشی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ مریضوں کو مہنگے برانڈ کی ادویات خریدنے کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو میڈیکل اینڈ ڈینٹل پریکٹشنرز کے ضابطہ اخلاق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ بہرحال اس خط پر کتنا عمل ہوا اس کا اندازہ رواں سال کے دوران بڑھتی مہنگائی سے ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ ادویات مہنگی ہونے کا مقصد عوام کو سستے علاج سے محروم رکھنا ہے ویسے بھی ہمارے یہاں سرکاری اسپتالوں میں ادویات غائب ہی رہتی ہیں، شہریوں کو میڈیکل اسٹورز سے ادویات مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں۔

اگر مجموعی طور پریہ اندازہ لگایا جائے کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنے افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں تو یقینا یہ چونکا دینے والا ہو گا۔ عام طور پر سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں لوگوں کارش لگارہتا ہے جو کسی نہ کسی بیماری کا شکارہیں ایک طرف بھاری فیسوں کی ادائیگی تو دوسری جانب مہنگی ادویات، کس طرح سے غریب عوام اپنا بجٹ ان حالات میں برابر کرسکتے ہیں جوکہ انتہائی مشکل ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی کی صورتحال سب کے سامنے ہے مگر اب تک عوام کو یہ تسلیاں دی جارہی ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے حالات بہتر ہونگے لیکن بدقسمتی سے بہتر تو کجا عوام کوذرّہ بھر ریلیف ملتاتک دکھائی نہیں دے رہا۔