|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2021

نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت 2008ء سے 2013 میں مائننگ کا لائسنس نہ ملنے پر ٹی سی سی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا جن میں سے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انسویٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کو مجموعی طور چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان چھ ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ٹھیتیان کاپر کمپنی کے دو شراکت داروں میں سے ایک شراکت دار سے دوبارہ معاہدہ کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو اسی مجوزہ معاہدے کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔

مگر اسے خفیہ رکھا گیاہے جویقینا حیرانگی کی بات ہے کیونکہ اس سے قبل ریکوڈک کیس اور کمپنی کے حوالے سے جو معاملات چل رہے تھے ان دنوں ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے جنہوں نے اسمبلی میں حکومت،اپوزیشن اراکین سمیت ماہرین کو بلایا تھا اور ساتھ ہی اس تمام اجلاس کی کوریج کی بھی مکمل اجازت تھی اور اس حوالے سے ریکوڈک کیس کے متعلق پیشرفت اور حکمت عملی پر سیر حاصل بحث ہوئی اور میڈیا نے اسے رپورٹ بھی کیا مگر اس بار خفیہ اجلاس نے ایک نئے ابہام کو جنم دیا ہے کہ کیونکر اس پر اپوزیشن بھی خاموش تماشائی بن چکی ہے ؟کیا اب یہ تسلی کرلی جائے کہ بلوچستان میں کسی قسم کی کوئی اپوزیشن موجود ہی نہیں ۔ بہرحال ریکوڈک کے متعلق صوبائی اسمبلی میں اِن کیمرا اجلاس ہوا جس میں اراکین اسمبلی کو اس پراجیکٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اجلاس کی اندرونی کہانی کے حوالے سے چند معلومات سامنے آئی ہیں، اجلاس میں شریک اراکین اسمبلی کو بتایاگیا کہ پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی ادائیگی سے بچانے کے لیے اس منصوبے کا ایک شراکت دار بعض شرائط پر معاہدے پر آمادہ ہے۔ٹھیتیان کاپر کمپنی کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی انٹافگوسٹا کمپنی کا ایک جوائنٹ وینچر ہے۔جرمانے کے چھ ارب ڈالر میں سے تین، تین ارب ڈالر دونوں شراکت داروں کے حصے میں آنے تھے۔

اجلاس میں موجود چند ارکان کا کہنا ہے کہ انٹافوگسٹا کمپنی چاہتی ہے کہ اسے اس کے جرمانے کی رقم کی ادائیگی کی جائے چونکہ اس رقم کی ادائیگی بھی ممکن نہیں جس پر بیرک گولڈ سے کہا گیا کہ وہ نئے معاہدے کے تحت دوسرے شراکت دار کے حصے کی رقم کی ادائیگی اپنے ذمہ لے۔بیرک گولڈ اپنے حصے کی جرمانے کی رقم نہیں مانگے گی اور دوسرے شراکت دار کی تین ارب ڈالر کی ادائیگی اپنے ذمہ لینے پر آمادگی کا اظہار کیا تاہم اس کے نتیجے میں حکومت پاکستان سے ٹیکسوں کی مد میں رعایتیں مانگی ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی جانب سے یہ شرط سامنے آئی ہے کہ بلوچستان کے جو ٹیکسز بنتے ہیں ان میں کوئی رعایت نہیں دی جائے تاہم وفاقی حکومت اپنی ٹیکسوں میں رعایت دے۔ منصوبے میں پچاس فیصد سرمایہ کاری کی بنیاد پر منافع میں سے پچاس فیصد بیرک گولڈ کو ملے گا۔ اگر حکومت بلوچستان سرمایہ کاری کا بقیہ پچاس فیصد دینے پر آمادہ ہوئی تو منافع کا بقیہ پچاس فیصد حکومت بلوچستان کا ہو گا۔ اگر حکومت بلوچستان کے لیے سرمایہ کاری ممکن نہ ہوئی تو بقیہ پچاس فیصد کی سرمایہ کاری وفاقی حکومت کرے گی۔دوسری صورت میں کسی سرمایہ کاری کے بغیر بقیہ پچاس فیصد منافع میں سے 25 فیصد بلوچستان اور25 فیصد حصہ وفاقی حکومت کا ہو گا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا کہ بلوچستان حکومت کیلئے وفاقی حکومت ریکوڈک پراجیکٹ پر اٹھنے والا تمام مالی بوجھ اٹھائے گی۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعظم کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ وزیراعظم کا ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کا مالی بوجھ اٹھانے کا اعلان تاریخی ہے یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کے لیے امن، خوشحالی اور استحکام کا آغاز ثابت ہو گا۔بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ ریکوڈک منصوبے سے متعلق ہونے والے نئے معاہدے کے بعد بلوچستان میں معاشی حوالے سے کیا تبدیلیاں رونما ہونگی اور اس سے بلوچستان حکومت سمیت عوام کو کتنا فائدہ پہنچے گا یہ سوال مستقبل پر ہی چھوڑا جاسکتا ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ ریکوڈک منصوبے کے نئے معاہدے کے بعد بلوچستان کو اس بار نظرانداز نہیں کیاجائے گا بلکہ اس کا جائز حق اور منصوبے کے منافع سے فائدہ دیا جائے گا تاکہ بلوچستان کے اس ایک منصوبے سے اس کا بھی بھلا ہو۔