|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2022

اسلام آباد ڈی چوک پر سیاسی دنگل یا محاذ آرائی ہونے جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک والے روز دس لاکھ کا مجمع اکٹھاکرنے کا اعلان کیاگیا ہے اور بتایاجارہا ہے کہ جشن منایاجائے گا تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے والے اسی راستے سے ہی ووٹ کاسٹ کرکے آئے اور جائینگے۔ اب اس جملے کا کیا مطلب نکالاجائے ،کیا یہ جمہوریت کے برعکس نہیں ۔یہ بھی بالکل ٹھیک نہیں کہ اپوزیشن کی اپنی نجی ملیشیاء ارکان قومی اسمبلی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیکیورٹی کے نام پر وہاں مامور رہے۔

دونوں اطراف سے سیاسی جنگ اب تصادم اور لٹ برداری کی طرف بڑھ رہی ہے مگر اس کے انتہائی بھیانک نتائج مرتب ہونے کے خدشات ہیں ،اگر سیاسی جماعتوں نے بردباری اور صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ نہ کیا تو یہ جنگ صرف اسلام آباد کے ڈی چوک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ملک بھر میں ایک انارکی جیسی صورتحال پیدا ہوگی اور بڑے سیاسی بحران اور انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی اور سیاسی حق ہے اوراس حوالے سے بیشک سیاسی جماعتیں اپنے طور پرکام کریں مگر مسلح جتھوں کو اکٹھاکرکے تصادم کی بات کرنے والے یقینا جمہوریت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔پہلے سے ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی نے بحرانات پیدا کئے ہیں اگر یہی رویہ سیاسی حوالے سے استعمال کیا گیاجسے کوئی بھی فریق اپنی جیت کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کاسوچ رہی ہے تو وہ ملک کے مفادات کو نہیں بلکہ وقتی طور پر اپنی جزوی فائدے کو دیکھ رہاہے کیونکہ کسی نے بھی لٹ بردار مسلح جتھوں کو اسلام آباد ڈی چوک پر اکٹھاکیا تو یقینا دوسرے فریق کی جانب سے بھی یہی رویہ سامنے آئے گا ،کارکنان ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہونگے ۔

یہ سیاسی جنگ ہے ووٹ کاسٹ کرنا ہر رکن کا حق ہے منحرف اراکین کی ناراضگیاں اپنی جماعت سے ہیں تو اسے دور کرنا خود جماعت کی ذ مہ داری ہے اور جو مخالف سمت پر ہے وہ اپنا ووٹ دینے جارہا ہے یہ اس کا آئینی اورقانونی حق ہے ۔قانونی اور آئینی سیاسی جنگ میں مسلح تصادم جیسا ماحول پیدا کرنے سے جمہوریت کو بہت بڑا دھچکا لگے گا ۔ہار پار کی سیاست کرنے کے بجائے آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر مستقل مزاجی کے ساتھ سیاست کی جائے تاکہ جمہوری ادارے مضبوط ہوسکیں وگرنہ بھیانک نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے پھر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ملبہ نہیں ڈال سکتے ۔لہٰذا ملک کے وسیع ترمفاد میں سوچ بچار کرکے فیصلہ کریں اور عوام میں جمہوری شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں ناکہ انہیں طیش دیکر برداشت وتحمل کو ختم کیاجائے ۔