|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2022

سندھ ہاؤس میں موجود حکومتی اراکین کے نام سامنے آ گئے۔سندھ ہاؤس میں موجود حکومتی اراکین میں راجہ ریاض، باسط سلطان بخاری، نور عالم خان، ملتان سے رکن قومی اسمبلی احمد حسین ڈیہڑ، نواب شیر وسیر سمیت دیگر شامل ہیں۔حکومتی رکن قومی اسمبلی احمد حسین ڈیہڑ نے نام سامنے آنے پر کہا کہ اپنی مرضی سے سندھ ہاؤس آئے ہیں حکومت کا پیسوں کا الزام جھوٹ پر مبنی ہے۔ چند ماہ قبل ملتان میں ریسکیو 1122 کو 40 کروڑ روپے کی زمین عطیہ کی۔انہوں نے کہا کہ ہم پیسے لے کر بکنے والے نہیں ہیں۔نور عالم خان نے کہا کہ ہم لائے نہیں گئے بلکہ خود آئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ یا کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی تو کہا گیا کیا آپ پیپلز پارٹی میں ہیں۔ میرے حلقے میں گیس نہیں آتی کوئی بات سننے والا نہیں ہے۔

حکومتی رکن اسمبلی باسط سلطان بخاری نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت سے کوئی وزارت نہیں مانگی لیکن ایک منصوبہ تھا جو اپنی سربراہی میں مکمل کرنے کا کہا تھا۔ حکومت نے ساڑھے 3 سالوں میں کچھ نہیں کیا۔راجہ ریاض نے نام سامنے آنے پر کہا کہ کسی نے کوئی پیسہ نہیں دیا بلکہ ہم نے ووٹ ضمیر کے مطابق دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو پتہ ہے پولیس سے لاجز پر حملہ کرایا گیا اور ہمارے ارکان پر تشدد کیا گیا تھانے لے گئے۔ محسوس کیا جو واقعہ لاجز میں ہوا وہ ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔راجہ ریاض نے کہا کہ 2 درجن سے زائد ارکان قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں۔دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے الزام عائد کیا کہ پانچ لوگوں کو 15 سے 20 کروڑ روپے ملے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ایکشن کے ڈر سے لوٹے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔فواد چودھری نے کہا کہ خچروں اور گھوڑوں کی منڈیاں لگ گئی ہیں۔ انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے اراکین کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کو ان ضمیر فروشوں کو تاحیات نااہل قرار دینے کی کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین باضمیر ہوتے تو مستعفی ہوجاتے۔

بلی تھیلے سے باہر آہی گئی گزشتہ کئی روز سے اپوزیشن کی جانب سے یہ باتیں کی جارہی تھیں کہ پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتیں ان کے ساتھ ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری جنہیں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے انہوں نے توپریس کانفرنس کے دوران برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ 172سے بھی زائد ممبران ہمارے ساتھ ہیں نام بھی بتاسکتے ہیں بہرحال نام اس وقت تک سامنے نہیں آئے مگر گزشتہ روز سندھ ہاؤس کے اندر سے بہت بڑی خبر برآمد ہوئی کہ کتنے حکومتی ارکان اس وقت پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں اور ان تمام افرادنے جو منظر عام پر آئے ہیں،رقم لینے کی مکمل تردید کی ہے اور مؤقف اپنایا ہے کہ ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی حکومتی کارکردگی پر تنقید بھی کی ہے۔ بہرحال ارکان اسمبلی کو رائے کی آزادی ہے کہ وہ کس کے ساتھ جائیں ،تاریخ خود کو دہراتی ہے کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کس طرح سے پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین کے جہاز میں ارکان بھربھر کر لائے گئے اور پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے انہیں اکٹھاکیا گیا ،اس دوران بھی یہی الزامات لگائے گئے کہ انہوںنے ضمیر فروخت کرکے پیسے لیے ہیں ،اس دوران بھی انہی ارکان نے اس کی تردید کی ۔اب معاملہ دلچسپ ہوتا جارہا ہے یہ صرف شخصیات سامنے نہیں آئیں بلکہ بہت بڑا سیاسی ہنگامہ برپا ہونے جارہا ہے اب حکومت کی جانب سے بھی بڑا ردعمل سامنے آئے گا، ہر بدلتے لمحے کے ساتھ سیاست میں ایک نیا موڑ آرہا ہے آئندہ چند گھنٹوں کے دوران مزید انکشافات بھی سامنے آئینگے مگر جو بھی ہوگا سیاسی حوالے سے بڑا دلچسپ ہی ہوگا۔