|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2022

ڈی چوک اسلام آباد میں سیاسی پاور شو سے قبل ہی سیاسی حالات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد سندھ ہائوس میں پی ٹی آئی اور اتحادی ارکان اسمبلی کے منظر عام پر آنے کے بعد نیا ہنگامہ برپا ہوگیا ۔وزیر داخلہ شیخ رشید نے اس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں گورنر راج لگایا جائے مگر اس کے لئے محض وزیر داخلہ کا ہارس ٹریڈنگ کاجواز ہی کافی نہیں کیونکہ گورنر راج اس وقت لگایا جاسکتا ہے جب ایمرجنسی جیسے حالات ہوں، امن و امان کی گھمبیر صورتحال ہو جو حکومتی ناکامی سبب بنے۔لیکن ایسے حالات سندھ میں تو ہیں ہی نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ واقعہ اسلام آباد میں ہوا ہے اور واردات سندھ میں کی جائے گی تو اس پر سوالات اٹھیں گے، اس لیے جو آئینی اور سیاسی راستہ ہے وہ اپنایا جائے۔

البتہ اب گورنر راج پر وزیر خارجہ کا موقف آگیا ہے کہ سندھ میںگورنر راج لگانے کا کوئی ارادہ نہیں جبکہ وزیراعظم نے ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس پر بات کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر یہ ایک طویل معاملہ ہے کیونکہ فلور کراسنگ پر فوری طور پر نااہلی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ الیکشن کمیشن مکمل ایک پراسیس کے بعد فیصلہ کرے گی جس میں تمام قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے گامگر اس وقت حالات کچھ بہتر دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ سندھ ہائوس پر پی ٹی آئی ارکان کا دھاوا بولنا، پھر سندھ میں اس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی کی جانب سے گورنر ہائوس سندھ کے سامنے مظاہرہ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ آگے چل کر بہت بڑا محاذ کھل جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان سندھ ہاؤس کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ پولیس نے مظاہرین کے ساتھ موجود دونوں اراکین قومی اسمبلی کو گرفتار کر لیا۔پی ٹی آئی کے کارکنان نے سندھ ہائوس میں داخل ہو کر منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں لوٹے اٹھا رکھے تھے اور منحرف ارکان اسمبلی اور حزب اختلاف کے خلاف نعرے لگائے۔

مظاہرین نے احتجاج کے دوران سندھ ہاؤس کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے اور نعرے بازی کی۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔پی ٹی آئی کے رہنما فہیم خان نے کہا کہ انہیں عمران خان کے نام پر ووٹ ملا تھا، یہ غدار ہیں، ہم نے انہیں صرف ایک پیغام دیا ہے لیکن ابھی فلم باقی ہے۔ ہم پرامن طریقے سے آئے تھے لیکن پولیس کی کارروائی پر ہم نے اپنا ردعمل دیا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کارکنان ان کا پیچھا کریں گے، انہیں چاہیے کہ واپس آئیں اور عمران خان سے معافی مانگیں۔ اگر انہیں شکایت ہے تو استعفیٰ دیں اور الیکشن لڑ کرآئیں۔ پہلے استعفے دیں پھر جو سیاست کرنی ہے کریں۔ پی ٹی آئی کے رہنما وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ کارکنان ایسی کسی کارروائی کا حصہ نہ بنیں جو آئین اور قانون کے خلاف ہو۔ پی ٹی آئی قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور قانون ہاتھ میں لینا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔حالات کا تقاضہ ہے کہ معاملے کو سیاسی حوالے سے دیکھا جائے اور اس کا مقابلہ بھی سیاسی طریقے سے کیا جائے یہی ملک کے مفاد میں ہے وگرنہ انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی اور اسی طرح تشدد کا راستہ اپنایا گیا تو جنگ محض کراچی اور اسلام آباد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ملک کے کونے کونے تک پھیل جائے گی۔ اس لیے سیاسی بردباری کا مظاہرہ کیا جائے وگرنہ جمہوریت کے نقصان کے ذمہ دار پھر سیاسی جماعتیں ہونگی اور ملک میں عدم استحکام کے جوابدہ بھی وہی ہونگے جو طاقت کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔