|

وقتِ اشاعت :   June 18 – 2022

پانی ایک بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پورے بلوچستان میں صرف سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی بہت کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔
بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کے دو بیراجوں سے آتا ہے جن میں گڈو بیراج سے چھ ہزار سات سو (6700) کیوسک جبکہ سکھر بیراج سے دو ہزار چار سو (2400) کیوسک براستہ کیرتھر کینال ملتا ہے۔ اس کے علاوہ دو چھوٹی نہریں بھی ہیں جن سے مجموعی طور پر 1200 (بارہ سو) کیوسک پانی بلوچستان کو ملتا ہے لیکن آج کل اس پانی پر بھی سندھ حکومت نے قبضہ جما رکھا ہے۔

بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کی حدود میں چوری کر لیاجاتا ہے۔ اس وقت بلوچستان کی دونوں بڑی نہروں (پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال) کا نہری نظام بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ کیر تھر کینال اور پٹ فیڈر کینال کی تہہ میں اتنی زیادہ مٹی بیٹھ گئی ہے کہ دونوں کینالیں سکھر اور گڈو بیراج سے اپنے حصے کا پانی نہیں لے پا رہیں۔ مذکورہ دونوں کینالز کی برانچوں کی کھدائی و بھل صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے بہاؤ کی رفتار انتہائی سست رہتی ہے۔
مقامی زمیندار حضرات نے بتایا کہ بلوچستان کی دونوں بڑے کینالز کے سسٹم سندھ کی حدود میں ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی بھی اپنی مرضی سے بلوچستان کو دیتے ہیں اور کبھی بھی مکمل پانی نہیں دیتے۔ اور تو اور کبھی سندھ کے علاقے میں کھدائی و بھل صفائی تک اچھے طریقے سے نہیں کرتے۔ اب تو انتہا یہ ہے کہ ان دونوں نہروں میں کئی علاقوں کے فضلے کا پانی بھی ڈال دیا جاتا ہے جن میں سکھر اور شکارپور شہر سمیت دیگر کئی علاقے شامل ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ نہ کبھی سندھ حکومت نے اور نہ ہی بلوچستان حکومت نے اس گندے پانی کا کوئی حل ڈھونڈا ہے۔ جن اضلاع کے لوگ فضلے کا ملا پانی پئیں گے، ان اضلاع میں بھلا کیسے بیماریاں نہیں پھیلیں گی؟ سندھ کے بااثر افراد ہر سال موسم خریف میں کینالوں سے پانی چوری کرتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں کینالز کی کمانڈ کے ہزاروں کسانوں اور زمینداروں کی تقریباً تین لاکھ ایکڑ زرخیز زرعی زمینیں بنجر اور غیر آباد ہوتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق، اب تو حد ہوگئی ہے کہ بلوچستان میں نیا نعرہ بلند ہوا ہے کہ پانی دو ووٹ لو۔ یعنی اب پانی ووٹ پر فروخت ہوگا۔
حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ پانی چوری روکنے کیلیے ایف سی سکھر بیراج سے لے کر کیرتھر کینال کے ٹیل تک رکھا جائے تاکہ پانی چوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکے اور حکومت بلوچستان غیرقانونی واٹر کورس کے خلاف محکمہ آبپاشی سے بھرپور تعاون کرے تاکہ پانی کی کمی کو دور کیا جائے اور کسانوں کو وقت پر پانی کی ترسیل شروع کی جائے تاکہ بلوچستان کے کسان خوشحال ہوسکیں مگر سندھ حکومت کی ہٹ دھرمی دیکھ لیں کہ وارہ کینال سسٹم کو حالیہ سیزن میں کھول دیا ہے جو ایک افسوسناک عمل ہے اس وجہ سے بلوچستان کا آدھا پانی چوری ہو جاتا ہے جس کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔
سندھ نے ہمیشہ بلوچستان کو وقت پر پانی دیا اور پانی کا جو کوٹہ ارسا نے مقرر کیا ہے اس کوٹے کے مقابلے میں بہت کم پانی دیا گیا ہے۔ 2010 سے سیلابوں نے سندھ کے حصے میں بلوچستان کی نہروں کے پشتوں کو ختم بھی کیا ہے۔ سندھ نے کبھی اپنے حصے کی بھل صفائی کا کام بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کے حصے میں چلا جاتا ہے جو چوری اور سینہ زوری ہے۔
حکومت بلوچستان کے نمائندے ہمیشہ چیختے رہتے ہیں کہ ہمارا پانی کہاں جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بلوچستان کے حصے کا پانی اکثر سندھ کی حدود میں چوری ہوجاتا ہے اور الزام پنجاب پرلگایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے حصے کا پانی پنجاب چوری کرتا ہے۔ سندھ حکومت نے سیف اللہ مگسی کینال نکال کر بلوچستان کے کیرتھر کینال کا آدھا پانی چرا لیا ہے۔
سندھ حکومت کی یہ ہمیشہ سازش رہی ہے۔ وہ بلوچستان کو پنجاب سے لڑا کر بلوچستان کے حصے کا پانی خود چوری کرتا ہے۔ حتٰی کہ بلوچستان حکومت بھی سندھ حکومت کی باتوں میں آ کر سب الزامات پنجاب پر لگا دیتی ہے جو افسوسناک عمل ہے۔ حکومت سندھ نے بلوچستان کی اکثر کینالز پر غیرقانونی واٹر کورس بھی بنائے ہوئے ہے اور حد تو یہ ہے کہ سندھ کے کچھ علاقوں میں رات کے وقت پانی لفٹ کرکے بھی چوری کیا جاتا ہے۔ یہ سراسر سندھ حکومت کی غنڈہ گردی ہے۔اس وجہ سے بلوچستان کے ٹیل کے حصوں تک پانی پہنچ ہی نہیں پاتا۔ اور تو اور، خریف کا سیزن یکم مئی سے شروع ہوتا ہے اور یکم ستمبر تک چلتا ہے۔ اسی دوران بلوچستان کو پانی یکم مئی کے بجائے بیس جون سے شروع کرکے اور ستمبر کی ابتداء سے پہلے ہی بند کیا جاتا ہے جو افسوسناک عمل ہے۔
پرانے وقتوں میں بلوچستان میں بارش اور دریاؤں میں پانی کی خاطر لوگ عورتوں، بچوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ لگتا ہے اب بھی زمانہ بدلا نہیں۔ بلوچستان میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ خون بہانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بلوچستان کے ضلع بھاگ ناڑی میں آج کل بارش کا پانی جیسے ہی پہنچتا ہے، اس کے استقبال کیلیے بکریاں قربان کی جاتی ہیں۔ بارش ہونے کیلیے بھی بکریوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیاجاتا اور ڈھول کی تھاپ پر پانی آنے کی خوشی میں رقص بھی کیا جاتا ہے۔ سندھ کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود زرعی پانی کا مسئلہ ہنوز موجود ہے۔آج بھی پورے بلوچستان کے اکثر علاقوں میں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور عوام منتخب نمائندوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت بورنگ اور کنوؤں کے ذریعے پانی کا حصول ممکن بنارہے ہیں۔
آج بھی بلوچستان کے تقریباً 90 فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ مختلف بیماروں کا شکار ہورہے ہیں۔ ہر سال بلوچستان میں سالانہ 80 فیصد تک بارشوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کم بارشوں سے لوگوں اور مال مویشیوں کی زندگی اجیرن ہوتی ہے، جانور لاغر ہوجاتے ہیں۔
1991 میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی سربراہی میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کے استعمال پر مذاکرات ہوئے تھے۔ آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ کس صوبے کو کتنا پانی ملے گا۔ بلوچستان چونکہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور دریائے سندھ کے نہری نظام کے آخری سرے پر واقع ہے، اس لیے اس کا حصہ دس ہزار تین سو کیوسک پانی مقرر کیا گیاتھا۔ اور یہ اس وقت بلوچستان کی سب سے بڑی کامیابی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو دس ہزارتین سو کیوسک پانی کبھی بھی نہیں دیاگیا ۔ گزشتہ کئی سال سے بلوچستان کے نہری پانی کا حصہ سندھ استعمال کرتا آرہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت بلوچستان اس کی مکمل قیمت وصول کرے کیونکہ بلوچستان کو گزشتہ کئی سال سے سات لاکھ ایکڑ زمین سے فصلیں حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور لاکھوں کسان غذائی ضروریات سے محروم ہو گئے ہیں۔
بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندے عوام کو پانی فراہم کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ سورج اپنی حدت و شدت سے آگ برسا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس علاقے میں پانی کا بحران انہی سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے غیور عوام الیکشن سے پہلے ان نمائندوں سے بھرپور اور پرزور مطالبہ کریں کہ آپ پہلے پانی کا مسئلہ حل کریںپھر ووٹ مانگنے آئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق آج بھیہر سال تیس فیصد لوگ زہریلے پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کینسر سے سینکڑوں چراغ بجھ چکے ہیں اور مزید کتنے چراغ بجھیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہ سب اسی پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں ایک اور کربلا کی یاد تازہ ہوگی۔