|

وقتِ اشاعت :   June 21 – 2022

ملک میں اس وقت بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے ,شدید گرمی کے دوران غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کمرشل اور گھریلو صارفین شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوکر رہ گئے ہیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی ایسا قصبہ ہو جہاں لوڈشیڈنگ نہ کی جارہی ہو جب پچھلی حکومت کے دورمیں طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو موجودہ حکومت میںشامل جماعتیں سراپااحتجاج ہوتی تھیں اور پی ٹی آئی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس کوئی پالیسی نہیں اور نہ ہی کوئی بہترین ٹیم موجود ہے جو ملک کو توانائی سمیت دیگر بحرانات سے نکال سکے جبکہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکومت کے ذمہ داران ہر جگہ یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر وہ حکومت کی بھاگ ڈور سنبھال لینگے تو ملک کو مسائل سے نکال کر عوام کو بہت حد تک ریلیف فراہم کرینگے۔

بلند وبانگ دعوے اس طرح کئے جاتھے تھے جیسے کہ جادو کی چھڑی موجود ہو اور آتے ہی تمام مسائل فوری حل ہونگے مگر المیہ یہ ہے کہ اس وقت معاشی سمیت دیگر بحرانات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں جو ہمدردی سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکومت کے ساتھ عوام کی تھی اب وہ غصہ میں تبدیل ہورہی ہے بلکہ ہرجگہ یہ تذکرہ ہورہا ہے کہ سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں ہے، تمام تر جنگ عوام کی فلاح وبہبود خوشحالی ترقی اور بحرانات کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کی رسہ کشی کے لیے تھی ۔

بدقسمتی سے آج ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے روپے کی قدر انتہائی کم ہوکر رہ گئی ہے، سونے کی قیمت بڑھ رہی ہے ۔ آئے روز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے عوام تو اب دو وقت کی روٹی کے لیے ترس گئے ہیں تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ کے لیے زندگی مشکل ہوکر رہ گئی ہے اگر موجودہ حکومت کے پاس بھی کوئی خاص پالیسی موجود نہیں تھی اور انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس ہی جاناتھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کس بنیاد پر کی جارہی تھی، پی ٹی آئی کی حکومت پر بھی عوام کا غصہ اسی حوالے سے تھا کہ مہنگائی سمیت دیگر مسائل اپنی انتہا ء کو پہنچ چکے تھے اس لیے عوام نے تبدیلی کو خطرناک بدحالی سے تشبیہہ دی اب موجودہ تبدیلی بھی ویسے ہی ثابت ہورہی ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ جہاں پر ملک کے بحرانات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہاں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اداروں میں ترمیم پر زور دیاجارہا ہے جو سراسر غلط رویہ ہے ،جوکام پی ٹی آئی کررہی تھی اب موجودہ حکومت بھی اسی ٹریک پر چل رہی ہے یعنی کل ملاکر بات یہ بنتی ہے کہ حکمرانوں کو ملک اور عوام سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں مگر ایک بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اس طرح کی طرز حکمرانی ملک کے لیے زوال کا سبب بنتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ذاتی اور گروہی مفادات سے نکل کر ملک کے وسیع ترمفاد میں فیصلے کئے جائیں عوام کو بجلی، گیس سمیت دیگر مسائل سے نکالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ عوام کے اندر موجود غم وغصہ ختم ہوجائے کیونکہ یہ خود حکومتی جماعت کے مفادمیں ہوگا ،آئندہ انتخابات میں عوام سے ہی رجوع کرنا پڑے گا اور یقینا عوام اس جماعت پر اعتبار کرے گی جو ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کے لیے اپنی توانائی صرف کرے گی ۔ اب حکومتی عہدیداروں پر ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنے حلقے میں جائیں تو کارکردگی کے حوالے سے جائیںاور ووٹ حاصل کریں جو ان کے عملاََ کردار سے ہی جڑا ہوا ہے۔