|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2022

حالیہ طوفانی بارشوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں سے ایک بھی نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے سب پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔.؟ انگریز انجینئرز نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پلیں بنائی تھیں جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کی بنی پلیں ناکارہ آخر کیوں ہوگئی ہیں۔۔۔؟ آخر ان سوالوں کا جواب کن لوگوں کے پاس ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ ۔۔۔۔کہاں ہیں وہ تمام پاکستانی حکمران۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے نمائندے۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے ایم پی اے ایم این جو پل تعمیر کرنے کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ پلیں سو سال تک چلیں گی۔ جو صرف ایک بارش میں ہی بہہ گئیں۔ اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل منہدم ہوچکے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟ اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنس گئے ہیں آخر کیوں۔۔؟ سی پیک روڈ خضدار ونگو کا پل جو چینی کمپنیوں نے بنایا تھا وہ بھی تباہ ہوکر سیلاب برد ہوگیا تاحال وہ بھی نہ بن سکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ پورے بلوچستان کو ملانے والی مین شاہراہیں حال بند پڑی ہیں اس وقت بلوچستان میں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ زمینی راستے برباد ہو گئے گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔

لوگ سڑکوں پر آگئے ۔ بچے بوڑھے، مرد ،خواتین بھوکے پیاسے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ حکمران طبقہ کچھ نہ کچھ مدد کریں گے جو فی الحال ناممکن ہے ،حکمران طبقہ تاحال اقتدار کی جنگ میں مصروف ہے۔ حکمرانوں کے ماتحت آفیسران وزیر اعظم اور اور وزیر اعلیٰ کو پروٹوکول دینے میں مگن ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ کیا ہو گا صوبہ بلوچستان کا؟ کیا ہوگا بلوچستان کے بے بس عوام کا جو بھوک سے نڈھال ہیں،سوال تو بنتا ہے۔۔۔۔سیلاب زدگان ایک ہی جواب مانگتے ہیں۔ ہمیں دھوپ میں بٹھا کر خود سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر مرد وخواتین کے زبان پر ایک ہی جملہ ہے آخر ہمارا قصور کیا ہے۔۔۔۔ ہمیں کیوں پانی برد کردیا گیا ان متاثرین کا سوال تو بنتا ہے۔مگر جواب ہمارے پاس نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ مگر اس دوران سوشل میڈیا کے نوجوانوں نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین پر خوب تنقید کی اور سوشل میڈیا پر ان کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ، کچھ ویڈیوز نے تو اس ملک کے عوام کو رونے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ایک ویڈیو میں ایک سردار سے مقامی سیلاب متاثرہ شخص ہاتھ ملا رہا ہے لیکن وہ سردار ہاتھ ملانابھی گوارہ نہیں کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ بارشوں کے پانی کے بہائو جو جو قدرتی راستے تھے اکثر سرداروں نوابوں نے اپنی اپنی جاگیریں بچانے اور فصلیں کاشت کرنے کے لیے بند کر دئیے ہیں اور کئی جگہوں کو پانی کو اسٹور کرنے کے لیے بڑے بڑے بند باندھے گئے ہیں۔ اس مرتبہ بارشیں معمول سے زیادہ ہوئیں، اسی وجہ سے آدھا بلوچستان ڈوب گیا۔

ان بند راستوں اور ناکارہ کام پر کبھی بھی حکومتی مشینری نے کوئی بھی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے کئی دیہات پانی برد ہوگئے ۔ بلوچستان میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات تودور کی بات بلکہ آج تک کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ برٹش دور حکومت میں بلوچستان میں اٹھارویں صدی کے آخر میں ریلوے لائن کے لیے جو پل بنائے گئے تھے وہ تاحال اسی حالت میں ہیں جس حالت میں ہمیں بنا کر دیئے گئے تھے۔ بلوچستان میں چودہ سو کلومیٹر تک ریلوے کا جال بچھایا گیا تیس سرنگیں اور آٹھ سو سے زائد خوبصورت پل بنائے گئے تھے جو خوبصورتی اور پائیداری میں اپنی مثال آپ ہیں، پہاڑوں کا سینہ چاک کرکے ریلوے نظام بنایا گیا تھا اس وقت جدید ٹیکنالوجی نام کی کوئی چیز نہیں تھی جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بننے والے پل آج بھی قائم ہیں مگر ہمارے دور کے جدید ٹیکنالوجی کے بنے ہوئے تمام پل مسمار ہوگئے ہیں یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ انگریز انجینئروں کے ڈیزائن کردہ پلیں، سرنگیں جو کسی شاہکار سے کم نہیں ہیں وہ آخر آج تک کیوں قائم ہیں؟آخر انگریزی انجینئروں کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ تھا جس سے وہ پل تعمیر کرتے تھے جو دو سو سال تک قائم و دائم رہتے تھے سبی سے کوئٹہ تک تین سو سے زائد لوہے کے پل ایک صدی پہلے بنائے گئے وہ بھی تاحال ریلوے کی پٹڑیوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں کو پل بنانے کیلئے چیرا گیا نو مقامات پر درہ بولان سے انہی پلوں سے ریل کو عبور کیا گیا تھا اس وقت صرف دو انجینئیر ریلوے پل بنانے میں مشہور تھے ایک رچرڈ ٹیمپل اور دوسرا جنرل برائون جو صرف ریلوے کے پل بنانے کے ماہر تھے۔ ان کے بنائے گئے پل آج بھی قائم و دائم ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1935 کے زلزلے میں پورا کوئٹہ تباہ ہو گیا تھا لیکن ان لوگوں کے بنائے گئے پل زمین بوس نہیں ہوئے آخر کیوں۔۔۔؟ یہاں سوال تو بنتا ہے کہ ہمارے پاس اس ملک میں آج ہزاروں انجینئر موجود ہیں جنہوں نے لاکھوں پل بنائے مگر ان سب کے بنائے جو آج کل گر رہے ہیں یہاں سوال تو بنتا ہے کہ صرف دو انگریز انجینئروں کے پل اتنے مضبوط کیوں ہیں جبکہ سینکڑوں انجینئروں کے بنائے گئے پل کمزور کیو ںہیں مگر اس کا جواب نہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہے اور نہ ہمارے انجینئروں کے پاس۔