|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2022

تقریباً ایک سال پہلے افغانستان میں اشرف غنی کی مغربی حمایت یافتہ حکومت شرمناک انداز میں ڈھے گئی اور طالبان کابل میں داخل ہوئے۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے اور طالبان کی حکومت کو ختم کرکے بیس سال کی بے تحاشا عسکری اور دیگر اخراجات اور امریکی سامراج اوران کے اتحادی مغربی ممالک کی حمایت سے شروع کیا جانے والا جمہوری تجربہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ نام نہاد جمہوری ریاست جس کی قیادت کی باگ ڈور تمام تر سابقہ جرائم پیشہ جہادیوں کے ہاتھوں میں تھی اور جس پر مغربی دنیا جمہوریت، انسانی حقوق اور خواتین کی خود مختاری کے نام پر ناز کرتی تھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

ایک ہزار اَرب ڈالر سے بھی زائد خرچ کرنے کے بعد وہ ایک صحت مند ریاست، مضبوط فوج اور دیگر ریاستی انفراسٹرکچر نہیں بنا سکے۔ تمام تر سیاسی اور جمہوری عمل پر ہمیشہ جنگی سردار اور سابقہ مجاہدین غالب رہے جنہیں ایک وقت میں امریکہ نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے پروان چڑھایا تھا۔ دوسری طرف امریکہ طالبان کے ابھار اور کاروائیوں کو روکنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہا۔ نوے کی دہائی کی نسبت اب طالبان کے پاس زیادہ علاقائی اتحادی تھے۔

یہ تمام تر عوامل حکومت کے انہدام کا باعث بنے لیکن افغان عوام کی مصیبتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ طالبان کی نئی حکومت تمام شعبوں بالخصوص معاشی شعبے میں کسی تباہ کاری سے کم نہیں ہے۔ کسی سنجیدہ معاشی پروگرام کی غیر موجودگی میں نئی حکومت عوام کے معاشی زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان کی اخلاقی پولیسنگ کر ر ہی ہے۔ ملک کھنڈرات بننے کی طرف رواں دواں ہے۔
پچھلی چار دہائیوں سے رجعتی جہادی سرکشیاں افغانستان کو تاراج کر رہی ہیں۔ 27اَپریل 1978ء کے ثور انقلاب کے نتیجے میں بننے والی نئی انقلابی حکومت کو کچلنے کے لیے امریکی اور مغربی سامراجیوں نے اپنے مقامی اتحادیوں کے ساتھ رجعتی ڈالری جہاد کا آغاز کیا اور اس کی مالی ضروریات کے لیے ایک نارکو اکانومی کی بنیاد رکھی۔ اس رجعتی کاروائی کو ’آپریشن سائیکلون‘ کا نام دیا گیا جس میں اربوں ڈالر جھونکے گئے تاکہ خلق پارٹی کی قیادت میں بننے والی حکومت، جس نے افغانستان سے سرمایہ داری اور جاگیرداری کو ختم کرکے اسے ایک خوشحال اور ترقی یافتہ سماج بنانے کا آغاز کیا تھا ، کو کچلا جاسکے۔ پاکستان اور دنیا بھر سے ہزاروں زرخرید مجاہدین بھرتی کرکے انہیں تربیت دے کر افغانستان میں تباہی پھیلانے کے لیے بھیجا گیا۔

سوویت یونین کے معاشی بحران اور انہدام اور خلق پارٹی کے اندرونی تضادات بالآخر انقلابی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئیں۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود انقلابی حکومت جہادی رجعت کے سامنے کھڑی رہی۔ سوویت یونین کا انہدام ہی وہ فیصلہ کن عنصر تھا جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی کیونکہ اس سے ملک کی معاشی لائف لائن کٹ گئی۔
خلق پارٹی کی حکومت کے گرنے کے بعد مجاہدین کے مختلف ٹولے، جو دراصل مختلف علاقائی سامراجی طاقتوں کے پراکسی تھے، آپس میں کابل پر قبضے کے لیے لڑ پڑے۔ اس خانہ جنگی نے ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ یہ صورت حال حتیٰ کہ امریکی سامراج کے لیے بھی ناقابل قبول تھی کیونکہ وہ نئی ’آزاد شدہ‘ وسط ایشیائی ریاستوں کے وسائل پر آنکھیں جمائے ہوئے تھے۔ 1994ء میں انہی مجاہدین گروہوں سے طالبان وجود میں آیا۔

پاکستان کی سٹریٹجک کمک اور خفیہ امریکی حمایت کے نتیجے میں جلد ہی طالبان دوسرے مجاہدین گروہوں پر غالب آگئی اور کابل پر قبضہ کر لیا۔ وسط ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کے لیے ضروری تھا کہ کابل میں ایک مضبوط مرکزی حکومت موجود ہو جو ان وسائل کو ان ممالک سے افغانستان اور پھر افغانستان سے بحفاظت پاکستان منتقلی کو یقینی بنائے ۔ پاکستان سے بحیرہ عرب اور وہاں سے عالمی منڈی میں پہنچایا جائے۔ تیل و گیس کی تلاش کی امریکی کمپنی یونوکال، جو اس پائپ لائن منصوبے کا ٹھیکہ ہتھیانے میں مشغول تھا، نے طالبان کی کابل میں اقتدار کی حمایت کی۔ لیکن خطے میں متضاد معاشی مفادات کی حامل سامراجی اور علاقائی طاقتوں کی آپسی چپقلش سے یہ منصوبہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ 11ستمبر 2001ء کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا جس کا بظاہر مقصد طالبان اور القاعدہ کو 11ستمبر کے حملوں کی سزا دینا تھا اور افغانستان میں جمہوریت قائم کرنا تھا۔
حملے کے وقت امریکی سامراج کے کچھ واضح اور چند خفیہ مقاصد تھے۔ واضح مقاصد میں طالبان کی حکومت کو گرانا، بنیاد پرستی کو ختم کرنا، جمہوریت قائم کرنا، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینا وغیرہ شامل تھے جبکہ خفیہ مقاصد میں چینی اثر و رسوخ کو روکنا، روس پر نظر رکھنا، ایران پر دھونس جمانا اور افغانستان کے وسیع معدنی وسائل کو لوٹنا تھا۔ بیس سال کی قبضہ گیری کے بعد امریکی سامراج اور ان کے اتحادی اپنے مندرجہ بالا تمام مقاصد میں بُری طرح ناکام رہے۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ امریکی سامراج انہی بنیاد پرست رجعتی قوتوں کے ذریعے افغانستان میں جمہوریت لانا چاہتا تھا جنہیں اس نے خلق پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے تربیت دی تھی۔ یہی مجاہدین، وار لارڈز اور ڈرگ مافیا ملک میں مغربی جمہوریت کا چہرہ تھے۔
امریکہ نے افغانستان میں ملک سازی یا Nation-buildingایک اہم تاریخی موڑ پر شروع کیا جب عالمی سرمایہ داری کا ’نیولبرل‘ معاشی ماڈل پوری دنیا میں اپنی پھیلائو کی آخری حدود کو پہنچ چکا تھا۔ عالمی سرمایہ داری میں پیداواری قوتوں میں آخری بڑی پیش رفت دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عرصے میں ہوئی تھی وہ بھی جنگ میں پیداواری قوتوں کی وسیع تباہ کاری کے بعد ہی ممکن ہوسکا۔ تاہم یہ معاشی ابھار بھی 1973ء کے تیل کے بحران کے ساتھ ہی ختم ہوئی۔ تب سے ہی گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کرنے کے لیے عالمی سرمایہ داری نے نیو لبرل معاشی نسخوں کٹوتیوں، نجکاری، ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ڈی ریگولیشن اور معیشت میں ریاستی مداخلت کو کم کرنے جیسے اقدامات کو لاگو کرنا شروع کردیا۔ ٹریکل ڈائون معاشیات کے یہ نسخے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کے لیے کسی تباہی سے کم نہیں تھے۔ معیشت کے تمام کلیدی حصے نجی شعبے کے حوالے کردیئے گئے تاکہ شرح منافع کو بحال کیا جاسکے۔ اس سے اَرب پتیوں کی ایک نئی پرت پیدا ہوئی جبکہ کروڑوں لوگ اس کی قیمت ادا کرتے ہوئے پوری دنیا میں غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے۔
عالمی سرمایہ داری کی اس کیفیت میں افغانستان میں ’تعمیر نو‘ اور جمہوریت کے قیام کے منصوبے کو ناگزیر طور پر ناکامی سے دوچار ہونا تھا۔ عالمی سرمایہ داری اپنی تاریخی ترقی پسندی کے کردار کو کب کی کھو چکی تھی۔ نہ نہ تو امریکی کسی سنجیدہ تعمیر نو کے خواہاں تھے نہ ہی اس طرح کے کسی اقدام کی گنجائش تھی۔ پس پردہ ان کے منصوبے کچھ اور ہی تھے۔ اس میں بھی وہ ناکام ہوگئے۔ تعمیر نو پر تمام تر وسیع اخراجات کے باوجود وہ افغانستان کو ایک جدید قومی ریاست نہیں بنا سکے۔ امریکہ نے اس سے پہلے اسی طرح کے تجربات جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور چین کے گرد دیگر چھوٹی ریاستوں میں کیے تھے تاکہ سوشلزم کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔ افغانستان میں ان کے تمام تر تعمیراتی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے مقاصد عسکری تھے۔
جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی شکل میں تمام تر سابقہ مجاہدین اور وار لارڈز کو اقتدار میں لایا گیا۔ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے نعروں سے صرف شہروں کے مڈل کلاس ہی مستفید ہوئے جو عالمی امداد اور این جی اوز کی سرمایہ کاری سے پیدا ہوئے تھے جبکہ بقیہ افغان پہلے کی طرح ہی رلتے رہے۔ منشیات کے گرد بننے والی کالی معیشت اسی طرح جاری رہی جو حتیٰ کہ آج بھی طالبان کی معاشی لائف لائن ہے۔ ان تمام سالوں میں حتیٰ کہ کابل میں امریکی سفارت خانے کے اہلکار بھی منشیات کے اس کالے دھندے میں ملوث پائے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی 90فیصد معیشت غیر دستاویزی یا غیر رسمی ہے جس کا ایک بڑا حصہ منشیات کے کاروبار پر مشتمل ہے۔ اس طرح کی معیشت کی موجودگی میں دستاویزی یا رسمی معیشت اور ریاستی ڈھانچوں میں کرپشن اور انتشار پھیلنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ دو دہائیوں کی جمہوریت کے دوران بھی نہ افغان حکومت اور نہ امریکی اس غیر رسمی معیشت کو روک سکے۔ اس کے برعکس افغان حکومت کے اپنے اہلکار اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ نتیجتاً ان کی نیشن بلڈنگ کا منصوبہ دھڑام سے گر پڑا۔
اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور عسکری برتری کے باوجود نیٹو طالبان کی سرکشی کو قابو نہیں کرسکے جن کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں تھے اور ڈیپ سٹیٹ سے انہیں مسلسل سٹریٹجک اور عسکری کمک مل رہی تھی۔ نوے کی دہائی کے برعکس آج طالبان نے خطے کی طاقتوں ایران، روس اور چین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر لیے تھے۔ جب امریکی طالبان کو قابو کرنے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے طالبان کی صفوں سے بندے توڑ کر اور شام اور عراق سے داعش جنگجو منگوا کر افغانستان میں داعش خراسان کی بنیاد رکھی۔ طالبان کی روس اور ایران سے گہری وابستگی اس وقت زیادہ منظر عام پر آئی جب اُن کے اُس وقت کے امیر ملا اختر منصور ایران پاکستان بارڈر کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ملا اختر منصور دراصل داعش اور امریکہ کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے روس اور ایران کے دورے سے واپس آرہے تھے ۔(جاری ہے)