وزیر اعظم شہباز شریف کے آئندہ ہفتے دوحہ کے دورے سے قبل کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی منظوری دے دی تاکہ آئندہ نجی شعبے کے ایل این جی ٹرمینلز پر پابندیاں ہٹائی جا سکیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں 860 سے زائد مصنوعات اور ٹیرف لائنز پر مشتمل تمام 33 کیٹیگریز پر سے درآمدی پابندی ہٹانے کی بھی باضابطہ منظوری دی گئی۔
اس سے قبل 28 جولائی کو، ای سی سی نے تین کیٹیگریز کے علاوہ تمام سیل فونز،کاروں اور گھریلو آلات پر سے پابندی ہٹانے کی منظوری دی تھی تاہم، وزیر اعظم نے اس اقدام سے اتفاق نہیں کیا تھا اس لیے کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق نہیں کی تھی۔
تاہم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اجلاس سے قبل وزیر خزانہ نے تمام مصنوعات پر سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا، یاد رہے آئی ایم ایف کی اگلے اجلاس میں پاکستان کے گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔
ایک اعلان میں کہا گیا کہ ‘پابندی کے نفاذ پر تجارتی شراکت داروں کی طرف سے اٹھائے گئے سنگین خدشات کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام اشیا پر سے پابندی ہٹائی جا سکتی ہے، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 30 جون کے بعد 31 جولائی 2022 تک اضافی چارج کی ادائیگی کے ساتھ روکے گئے سامان کے ترسیل کی سفارش کی۔’
کمیٹی نے ایل این جی پالیسی 2011 میں بڑی تبدیلیوں کی منظوری دی جس کے تحت تجارتی ماڈل پر آنے والے نجی شعبے کے ایل این جی ٹرمینلز کے اہم اسٹیکنگ پوائنٹ کو ہٹا دیا تاکہ پاکستان کی ایل این جی سپلائی چین میں ٹرمینلز اور ایل این جی سپلائی سمیت قطر کی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نےاس وقت کام کرنے والے ٹرمینلز سمیت تمام ایل این جی ٹرمینلز کو بھی اضافی استعداد کے استعمال کی اجازت دی، اس کے نتیجے میں نئے ٹرمینلز کے لیے موجودہ گیس پائپ لائن کی گنجائش محدود ہو سکتی ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایل این جی پالیسی، 2011 کے آرٹیکل 6.2(اے) کو ترامیم کے ساتھ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جو نجی شعبے کی جانب سے تیار کردہ نئے ایل این جی ٹرمینلز اور اس سے منسلک سہولیات کو حکومتی ضمانتوں کے بغیر تیسرے فریق تک رسائی فراہم کرتے ہیں، یہ تھر پارٹی رسائی 20سال تک کے لیے ہو گی جس کا آغاز ٹرمینل کی ٹرمینل کی تعمیر سے ہو گا لہٰذا ہر ٹرمینل کے لیے تھرڈ پارٹی رسائی لازمی ہو گی۔
مزید برآں، ٹرمینل کے ڈویلپرز، آپریٹرز، اور متعلقہ ادارے معلومات اور مارکیٹ کی نگرانی کے لیے متعلقہ معلومات آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو جمع کرائیں گے۔
پبلک سیکٹر اداروں کی طرف سے معاہدہ شدہ ایل این جی ٹرمینلز کی غیر استعمال شدہ صلاحیت کے لیے ٹی پی اے لازمی اوگرا کے ذریعے ریگولیٹ کیا جائے گا۔