|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2022

سنگت ظفر بلوچ
بلوچستان کی محرومیوں کی بابت وقتاً فوقتاً لکھنے کی کوشش کرتاہوں۔ اسی امید کے ساتھ کہ شاید کسی بے حس جاںمیں حرکت آجائے اور کسی مردہ ضمیر میں بیداری آجائے۔ یہ کوشش ہربار ناکام ہوتی ہے ۔میری تحریروں کامحور بلوچستان ہوتا ہے کیونکہ میں یہاں سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے وجود میں بلوچستان کیلئے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔یہاں کے کسی بھی شخص پر کوئی رنج، دکھ تکلیف پریشانی میرے لیئے کسی صدمے سے کم نہیں۔ ہزاروں خواہشات اس بستی کیلئے ہیں کہ اس میں خوشحالی کا سورج طلوع ہو، میرے مْرجھائے پھولوں میں خوشبو آجائے، اداس چہرے کْھل کر ہنسیں، غم کے ستائے افراد خوشی سے جھوم اٹھیں، سوگوار خاندانوں کے چہروں کی رونقیں بحال ہوں، مگر یہ حسرتیں یہ خواہشیں توقعات کے مطابق پوری نہیں ہوتیں مگر پھر بھی اس جستجو کے ساتھ زندہ ہیں مایوسی کو گناہ سمجھ کر امید کے سہارے زندگی کو قائم رکھا ہے۔!
بلوچستان وہی صوبہ ہے جسے قدرت نے سب سے حسین مقدر سے نوازا ہے اسکی قسمت میں خداوند تعالیٰ نے ہرقسم کی نعمت رکھی ہے۔ معدنی ذخائر، ساحل وسائل ،وسیع سمندر، ذرخیز زمین، اسی بلوچستان میں سونا چاندی تانبہ قیمتی پتھر سنگ مرمر تیل و گیس سمیت کئی قسم کے وسائل دستیاب ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں بلوچستان کے قدرتی وسائل لگی ہوئی ہیں ۔ قدرت نے اس خطے کو سب سے امیر اور مالامال بنایا ہے۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں طرزِ حکمرانی کی قحط ہے، یہاں انصاف رواداری، اصول، برداشت کی قحط ہے۔ وہ بلوچستان جوکہ ایشیاء کا بلکہ دنیا کی توجہ کا مرکز سمجھاجاتا ہے جو تمام بدحالی، محرومی، غربت، مفلسی، آئینی و قانونی سیاسی بحران کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ناروا سلوک کی وجہ سے وقت و حالات کی بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔

یہاں کے لوگ پینے کے پانی سے لے کر روٹی کے نوالے تک کا محتاج ہیں۔ تو اس صورت میں اہل بلوچستان یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ بلوچستان کو دانستہ طور پر ایسا رکھا گیا ہے۔ کیونکہ قدرت نے تو اہل بلوچستان کو اور صوبہ بلوچستان کو سب سے مالامال بنایا ہے مگر اس صوبے کو دانستہ طور پر اس طرح بدحالی کی دلدل میں دھکیلا جاچکا ہے۔ جان بوجھ کر اہل بلوچستان کو تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ تمام حقوق چھین کر یہاں کے عوام کوغلام بنایا گیا ہے۔جنہیں چیخنے چلانے کا بھی حق نہیں دیا جارہا ۔ یہاں کے حقوق پر قابض حکمرانوں نے پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا اب یہاں کے لوگوںسے آواز بلند کرنے کا بھی حق چھین لیا گیاہے۔ اْبھرتی آوازوں کو خاموش کرنے کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے، آئے روز ماورائے آئین و قانون لوگوں کی جبری گْمشدگیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کسی کارکن کو آزادی سے سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اظہاررائے پر پابندی عائد ہے۔ مصنوعی قیادت بنائی گئی ہے، انہیں سرکاری خزانے سے بھرپور مراعات حاصل ہیں۔ اس مصنوعی قیادت کو بلوچستان کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں ، انہیں کبھی کسی کی تکلیف کی پرواہ ہی نہیں ۔ انہیں بلوچستان کے اصل مسائل کا علم ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں ۔ وہ ایوانوں میں بیٹھ کر عوامی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ انہیں بتائے ہوئے رستے پر چل کر وقت پوری کرنی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے عوامی حلقوں کا اسمبلیوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔

اسی وجہ سے دوران الیکشن بلوچستان میں ٹرن آئوٹ انتہائی کم رہتا ہے۔ حتیٰ کہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ پانچ سو ووٹ سے منتخب ہوکر آتا ہے۔ عوامی حلقے شدید مایوسی کے عالم میں ہیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایوانیں محض خانہ پوری کی حد تک قائم ہیں۔ اصل کھیل ان ایوانوں سے باہر چل رہا ہے اصل فیصلے اسمبلی کے باہر سے صادر ہوتے ہیں۔ ان تمام غیر جمہوری پالیسیوں اور غیر جمہوری حرکتوں اور غیر جمہوری طریقوں سے اب نہ صرف بلوچستان میں مایوسیاں پھیل چکی ہیں بلکہ یہ مایوسی اب ملک بھر میں وسعت پذیرہے۔ اگرچہ تمام پالیسیوں کی ابتدا بلوچستان سے ہوتی ہے لیکن بعد میں انہیںپوری ملک کو بگتناپڑتا ہے۔ دیر سے سہی مگر اس غلط طریقہ کار کے اثرات ملک کے دیگر صوبوں تک ضرور پہنچتے ہیں۔ چند سال پہلے جو آوازیں بلوچستان سے اٹھتیں تھیں، جن شکوہ شکایتوں کا ذکر اہل بلوچستان کرتے ان پر دیگر صوبوں کی قیادتیں تضحیک آمیز لہجے میں غلط بیانی کے ساتھ تبصرہ کرتے آج وہ خود اس ظالم سانپ کے ڈسے ہوئے لگتے ہیں وہ بھی اس نقطے پر متفق ہو رہے ہیں کہ ملک میں غیرجمہوری غیر روایتی انداز اپنائے جارہے ہیں۔ بہرحال یہ تمام سنجیدہ پہلو قابل غور اور لمحہ فکریہ ہیں ان پر ملکی قیادت کو ایک پیج پر ہوکر ضرور سوچنا چاہیے اور سخت اسٹینڈ لینے کا پابند رہنا چاہیئے۔ بلوچستان پر ہر غلط پالیسی اور طریقہ واردات کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ اب یہاں کے لوگ مایوسی کی انتہاء کو پہنچ چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں سے اب متشدد خیالات شدت کے ساتھ اْبھر رہے ہیں۔

حالات میں کشیدگی کا سبب اور شدت پسندی کے رجحان میں اضافے کی اصل وجہ بھی مذکورہ بالا مسائل ہیں۔