|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2022

بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا کے رکھ دی سیلابی ریلوں نے تو سب حدیں ہی مٹادیں اور پورے بلوچستان میں ہر طرف پانی ہی پانی بن گیا۔طوفانی بارشوں کا پانی اور سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے تھے وہاں موجود بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے۔ اس وقت بھی این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بلوچستان کو فنڈز رقبے کے لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس وقت ریاست اور حکومت کہاں ہے۔۔؟ فلڈ کنٹرول ادارے بھی شاید نیند کی گولیاں کھا کر خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔اس وقت بھی بلوچستان میں محکمہ موسمیات نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ گوگل پر موسمیات کی رپورٹ جھوٹی ہوتی ہے جب ہمارے شہر میں بارش ہو رہی تھی تب گوگل موسم صاف بتا رہا تھا جو عبرت ناک بات ہے ۔محکمہ موسمیات بھی عوام کو سیلابی صورتحال سے پہلے سے آگاہ نہ کر سکی۔ پورے بلوچستان میں کل تین بڑی سڑکیں ہیں۔کراچی سے کوئٹہ جعفرآباد سے کوئٹہ پشین سے لاہور تک ان سڑکوں کا برا حال ہے یا تو ان کے پل گر جاتے ہیں یا تو پھر ٹریفک کی وجہ سے جام ہو جاتے ہیں حالیہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان میں مجموعی طور پر سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے ہیں۔
حالیہ طوفانی بارشوں سے انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں سے ایک بھی پل نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ انگریز انجینئروں نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پل بنائے تھے جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کے بنی پل ناکارہ آخر کیوں ہوگئے ہیں۔۔۔؟اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل گر کر منہدم ہوگئے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟
اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سی پیک روڈ خضدار ونگو پل جو چینی کمپنیوں نے بنایا تھا وہ بھی گر گیا تاحال وہ بھی پل نہ بن سکا ہے۔ پورے بلوچستان کو ملانے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے ۔زمینی راستے بند ہو گئے ہیں گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔ لوگ سڑکوں پر آگئے عورتیں بغیر چھت کے راستوں پر بیٹھ گئیں ہیں۔ بچے بوڑھے بھوکے پیاسے آس لگا کر بیٹھے ہیں کہ حکمران طبقے کے لوگ کچھ نہ کچھ مالی مدد کریں گے جو فی الحال ناممکن لگ رہا ہے حکمران طبقہ تاحال اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں کے ماتحت کام کرنے والے بالا آفیسران وزیر اعظم اور اور وزیر اعلیٰ کو پروٹوکول دینے میں مگن ہیں۔
کیا ہو گا اس صوبے کا۔؟ کیا ہوگا بلوچستان کے بے بس عوام کا۔۔۔۔۔ کیا ہوگا بھوک سے نڈھال بچوں کا۔۔۔۔ کیا ہو گا ننگے سر میدان میں بیٹھی ماؤں بہنوں کا۔۔۔۔۔ کیا ہوگا لاچار بزرگوں کا۔۔۔۔۔ سوال تو بنتا ہے۔۔۔۔سیلاب زدگان ایک ہی جواب مانگتے ہیں۔ ہمیں دھوپ میں بٹھا کر خود سائے میں بیٹھ گئے ہو۔ بلوچستان میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات دور کی بات بلکہ آج تک کسی کو خیال تک نہیں آیا۔
اس وقت سوشل میڈیا پر مرد خواتین کی زبان پر ایک ہی لفظ ہے آخر ہمارا قصور کیا ہے۔۔۔۔ ہمیں کیوں پانی برد کردیا گیا ان متاثرین کا سوال تو بنتا ہے۔مگر جواب ہمارے پاس نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ مگر اس دوران سوشل میڈیا پر کچھ نوجوانوں نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین پر خوب تنقید کی ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں کچھ ویڈیوز نے تو اس ملک کے عوام کو رونے پر مجبور کر دیا ہے حتیٰ کہ ایک ویڈیو میں ایک سردار مقامی سیلاب متاثرین سے ہاتھ بھی نہیں ملا رہا ہے جو ایک افسوسناک عمل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بارشوں کے جو جو قدرتی راستے تھے اکثر سرداروں اور نوابوں نے روک رکھا ہے اور بڑے بڑے بند بنا دیئے ہیں۔اس مرتبہ بارشیں معمول سے ذرا زیادہ ہوگئیں تھیں اسی وجہ سے آدھا بلوچستان ڈوب گیا ہے ان بند راستوں اور ناکارہ کام پر کبھی بھی حکومتی مشینری نے کوئی بھی توجہ نہیں دی تھی جس کی وجہ سے کئی دیہات پانی برد ہوگئے تھے ۔سچ تو یہ ہے کہ مقامی لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہ تھا بارشوں کی شدت ان کا سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ کچھ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنائے گئے تھے جو سب کے سب ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا بہاؤ مزید تیز ہوگیا ان ڈیموں کو بنانے کی اجازت کس نے دی یہاں بھی سوال تو بنتا ہے۔
بلوچستان میں چودہ سو کلومیٹر تک ریلوے لائن کے جال بچھائے گئے تھے تیس سرنگیں اور آٹھ سو سے زائد خوبصورت پائیدار پل بنائے گئے تھے جو خوبصورتی اور پائیداری میں آج بھی اپنی مثال آپ ہیں پہاڑوں کا سینہ چاک کرکے ریلوے نظام بنایا گیا تھا اس وقت جدید ٹیکنالوجی نام کی کوئی چیز دنیا میں وجودنہیں رکھتی تھی جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بننے والے پل آج بھی قائم اور پائیدار ہیں مگر ہمارے دور کے جدید ٹیکنالوجی کی بنے ہوئے تمام پل مسمار ہوگئے ہیں ۔ انگریز انجینئروں کے ڈیزائن کردہ پل اورسرنگیں جو کسی شاہکار سے کم نہیں ہیں وہ آخر آج تک کیوں قائم ہیں؟آخر انگریز انجینئروں کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ تھا جس سے وہ پل تعمیر کرتے تھے جو دو سو سال تک قائم و دائم رہ سکتے ہیں سبی سے کوئٹہ تک تین سو سے زائد لوہے کے پل ایک صدی پہلے بنائے گئے تھے وہ بھی تاحال ریلوے کی پٹریوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں کو پل بنانے کیلئے چیرا گیا نو مقامات پر درہ بولان کو انہی پلوں سے ریل کو عبور کیا گیا تھا اس وقت صرف دو انجینئیر ریلوے پل بنانے میں مشہور تھے ایک رچرڈ ٹیمپل اور دوسرا جنرل برائون جو صرف ریلوے کے پل بنانے کے ماہر تھے۔ ان کے بنائے گئے پل آج بھی قائم و دائم ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1935 کے زلزلے میں پورا کوئٹہ تباہ ہو گیا تھا لیکن ان لوگوں کے بنائے گئے پل زمین بوس نہیں ہوئے آخر کیوں۔۔۔؟ یہاں سوال تو بنتا ہے کہ ہمارے پاس اس ملک میں آج ہزاروں انجینئیر موجود ہیں۔ جنہوں نے لاکھوں پل بنائے مگر ان سب کے بنائے ہوئے پل آج گر رہے ہیںاور صرف دو انگریز انجینئروں کے پل اتنے مضبوط کیوں ہیں؟ اس کا جواب نہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہے نہ ہمارے انجینئیروں کے پاس۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان میں تباہی ضرور آئی ہے، مگر اتنی بھی نہیں آئی کہ ہماری حکومت این جی او زاور مخیر حضرات کی غیرت جاگ جائے۔
ماثیں وطن حاخاں تھئی چھماں وثی سریمغ کناں
ترجمہ۔ اے مادر وطن( بلوچستان ) تیری خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناؤں
حالیہ بارشوں کو دو ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ مگر آج تک وزیر اعظم نے صرف دو مرتبہ بلوچستان کا چکر لگایا ہے کسی بھی وزیر نے سیلاب متاثرین جو انتقال کر گئے ان کے گھروں تک پہنچنے کی زحمت تک نہیں کی ۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ حکمران طبقے کا ایسا رویہ دشمنوں کے ساتھ بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔ہم لوگ دلی پر تو قبضہ کرنے کا ہر روز سوچتے ہیں۔ مگر بلوچستان میں سیلاب متاثرین کیلئے کام کرنا گوارہ نہیں کرتے ۔ آخر ایسا رویہ کیوں ؟ کاش اسلام آباد میں موجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لوگوں کو بلوچستان کا نقشہ مل جائے تاکہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچستان کے عوام کی داد رسی کر کریں یا جھوٹی تسلیاں ہی دے دیں۔ شدید بارشوں کی وجہ سے اکثر بلوچستان کے لوگ سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر لاکھوں کی تعداد میں آباد ہوگئے ہیں۔ جن کے پاس ایک مچھر دانی تک موجود نہیں ہے افسوس اس بات کا لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو ہیلی کاپٹر نہیں مل رہا ہے کہ جس پر بلوچستان پہنچا جا سکے۔ بلوچستان تک پہنچنے کیلئے حکومت وقت کے نمائندوں کے پاس گاڑیوں کی بھی سخت کمی ہے۔ یا پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے سفر میں دشواری ہو رہا ہے۔حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے لوگوں کے مال مویشی ،فصلیں اور گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت ریاست کہاں ہے؟ وہی ریاست جو ماں کہلاتی ہے۔۔۔۔ وہی ریاست جو بچوں کو گود لیتی ہے وہی ریاست جو ہر شخص کی حفاظت کرتی ہے۔۔۔اس وقت حکومت بلوچستان کہا ںہے۔۔۔۔۔؟ وزیر اعظم پاکستان صاحب اس وقت کہاں ہیں۔۔۔؟…فلڈ کنٹرول کہاں ہے۔۔۔؟ این ڈی ایم اے کہاں ہے۔۔۔؟ پی ڈی ایم اے کہاں ہے۔۔۔؟ عدلیہ اشرفیہ کہاں ہے۔…؟ یہ وہی عدلیہ ہے جو راتوں کو کھلتا ہے۔۔۔۔ حکومت گرانے اور بچانے کے لیے۔۔۔۔۔۔؟ آج بلوچستان کے لوگ بے یار مدد گار سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے نے بارشوں سے اب تک ہونے والے نقصانات کی ایک رپورٹ بھی جاری کردی ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں بارشوں کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد ایک ستر ہوگئی۔ جاں بحق ہونے والوں چونتیس بچے شامل ہیں جب کہ بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی جھل مگسی اور خضدار میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں ہیں۔ پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران حادثات میں باسٹھ افراد زخمی ہوئے جب کہ صوبے بھر میں مجموعی طور پر پندرہ ہزار مکانات منہدم ہو گئے ہیں پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بارشوں سے چھ سو کلومیٹر پر محیط چار مختلف شاہراہیں شدید متاثر ہوئیں جب کہ بارشوں کے باعث تین ہزار مویشی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ کل ایک لاکھ 97 ہزار 930 ایکڑ کھڑی فصلوں، سولر پلیٹس، ٹیوب ویل اور بورنگ کو نقصان پہنچا ہے۔اب اس رپورٹ کے بعد کون ان سیلاب متاثرین کی مدد کرے گا۔ یہ پی ڈی ایم نے نہیںبتایا ہے۔ بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندے عوام کو سیلابی پانی کی فوری نکاسی میں یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں ایک اور کربلا کی یاد تازہ ہورہی ہے۔
سیلاب کے دوران پورے پاکستانی میڈیا کو یا تو کراچی نظر آتا ہے یا پنجاب اسمبلی ان کو بلوچستان کیوں نظر نہیں آتا ہے۔۔؟ یہاں پرجو قیامت برپا ہوچکی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت بلوچستان کے عوام کو آپ سب کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر مدد نہیں کرسکتے تو بلوچستان کے لیے آواز اٹھاؤ آپ کی آواز کی بہت ضرورت ہے تاکہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں تک ہم سب کی آواز پہنچ سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک ایف آئی آر بلوچستان حکومت پر بھی کی جائے جنہوں نے سیلابی پانی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔انہی رکاوٹوں کی وجہ سے آدھا بلوچستان ڈوب گیا ہے۔ ان تیرتی ہوئی لاشوں کا سپریم کورٹ از خود نوٹس کیو ںنہیں لیتا ہے کیا سپریم کورٹ صرف حکومت گرانے اور بچانے کے لئے رات کو کھل سکتا ہے تو ان لاشوں کے لئے دن کے اوقات میں از خود نوٹس کیوں نہیں لیتا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں جتنی بھی اموات ہوئیں ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے۔
اس سیلاب کے دوران وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں وہ داڑھی کی سیٹنگ کروا رہے تھے تو اس پہ خوب تنقید کی گئی تو اگلے روز اس نے سیلاب متاثرین کا فضائی دورہ بھی کیا ۔ بلوچستان میں جب جب سیلاب آتا ہے تو بلوچستان کے نوابوں اور سرداروں کے لیے نعمت بن جاتا ہے جب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کا دورہ کیا تو بلوچ خواتین نے وزیراعظم کو کھری کھری سنا دی اور کہا کہ ہمیں ریلیف کی ضرورت نہیں ہے بس مہنگائی کم کریں۔ اسے کہتے ہیں عوامی طاقت۔۔۔۔شاباش سیلاب زدگان بلوچستان۔
اس وقت سیلاب متاثرین کو ادویات اور راشن کی اشد ضرورت ہے۔بلوچستان حکومت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔غریب لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔کوئی ان غریبوں کا پرسان حال نہیں ہے حتیٰ کہ بلوچستان کے صحافیوں کی رپورٹ نقار خانوں میں دب جاتی ہے۔ اس وقت پورے بلوچستان کے سیلابی ریلوںسے متاثر ہونے والے ان گھرانوں کی سسکیاں اور آہیں سننے والا کوئی نہیںہے ۔اس وقت بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو دو وقت کی روٹی اور صاف پینے کا پانی درکار ہے اس وقت سیلاب متاثرین سیلابی پانی پی کر زندہ ہیں۔سماجی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ انتظامیہ کی بجائے خود زمینی حقائق دیکھ لیں بلوچستان کے عوام اس وقت بدترین مصیبت میں ہیں بلوچ تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے مہمان خانے بھرے رہتے ہیں اب دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو چکے ہیں ۔آئیں دیکھ لیں ان بلکتے سسکتے خشک ہونٹوں سے ہماری بے بسی کو ہمیں صرف دو وقت کا کھانا اور صاف پانی چاہیے اگر صاف پینے کا پانی بھی نہیں دے سکتے تو اس ماہ محرم میں تم سے بڑا کوئی شمر نہیں ہو گا۔
بلوچستان حکومت نے قدرتی آفات سے بچانے کے لئے ماضی میں نہ ہی حفاظتی بند بنائے گئے اور نہ ہی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے بڑے ڈیمز بنائے ہیں طوفانی بارش و سیلابی ریلوں نے نام نہاد ترقی کا دعویٰ کرنے والے سابقہ و موجودہ عوامی نمائندوں کی کارکردگی کو عیاں کردیا ہے۔کاش سرکاری مشینری کو بروقت بروئے کار لایا جاتا تو اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہ ہوتی۔ نوجوان رضاکار اپنی مدد آپ کے تحت علاقہ مکینوں کی مدد کر رہے ہیں۔ نااہل انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کے عہدیداران شہر اقتدار میں بیٹھے ہوئے مون سون سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور سیلابی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے شہر اقتدار سے صرف پریس کانفرنس کیا جا رہا ہے۔ جب جب بلوچستان میں قدرتی آفات آئی ہیں اور عوام کا جو حال ہوتا ہے وہ صرف ان کو ہی پتہ ہوتا ہے جن پر گزرتا ہے۔ ان حالات میں وہ جینے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلوچستان میں 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریاں کبھی نہیں بھلائے جا سکتے ۔اس وقت سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے عالمی برادری نے دل کھول کر اپنا حصہ ڈالا اور متاثرین کی بحالی کی خاطر امداد سرکار کو دینے کی بجائے مختلف این جی اوز کو دی تھیں۔ پھر کئی این جی اوز نے جو لوٹ مار مچائی تو ان کی مثال دینا بہت مشکل ہے حقیقی متاثرین کی بجائے نام نہاد متاثرین کو امداد دیا گیا تھا۔ امدادی سامان کے ٹرک ایم پی اے ،ایم این اے کے گھروں سے نکل کر بازار میں سر عام بکنے لگا تھا۔ اس وقت سے عالمی برادری کا این جی اوز اور حکمران طبقے سے اعتماد اٹھ گیا ہے اس وجہ سے حالیہ سیلاب میں ان لوگوں نے بلوچستان کے عوامکو ریلیف دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی۔ اس مرتبہ بلوچستان میں صاف شفاف طریقے سے مستحقین تک امداد پہنچانا اور ان کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے کی سخت ضرورت ہے اگر سابقہ طریقہ کار اپنایا گیا تو بس پھر غریبوں اور بلوچستان کا اللہ ہی حافظ۔
سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں میں نت نئی دکھ بھری کہانیاں سننے کو ملتی ہیں
بلوچستان کے سیلاب متاثرین کواب کئی برس اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں لگے گا۔ ضروری ہے کہ اس وقت سرکار و انتظامیہ وڈیرے بوتار میر نواب پیر نکل کر خود سروے کرکے ریلیف کا کام کریں اور پانی اترنے کے بعد بحالی کا کام بھی میرٹ پر کریں تاکہ غریب لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ اس وقت سرکار و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں ،سیاسی رہنماؤں اور امراء اور صاحب حیثیت احباب کو بھی سیلاب متاثرین کی دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔اللہ سیلاب متاثرین کو آسانیاں فراہم کرے۔