|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2022

ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے تقریباً اسی فیصد مواضعات سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔لوگوں کا کچھ بھی باقی نہیں بچا سب کچھ پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔گورنمنٹ سمیت سماجی تنظیموں اور پاکستان کے مخیر حضرات نے گزشتہ کئی دنوں سے ان اضلاع کے متاثرہ  علاقوں میں  امدادی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں۔جس سے وہ متاثرہ  لوگوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں خشک راشن ،ٹینٹ، کپڑے جوتے،بسترے،آٹا،ادویات سمیت ضرورت زندگی کی اشیاء سیلاب زدگان تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ابتدائی دنوں میں تو سب کچھ ٹھیک چلتا  رہا لیکن اب  پچھلے کئی  دونوں سے دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ غیر متاثرہ،پیشہ ور بھکاریوں اور جرائم پیشہ لوگوں نے لوٹ مار کرنے کیلئے  مختلف گروہ بنا لیے ہیں جو امدادی سامان والی گاڑیوں پر یا جہاں امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہو تا ہے وہاں دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے قدرتی آفات کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں شروع ہوتے ہی وہاں بڑے پیمانے پر لوٹ مار بھی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے حقیقی متاثرین تک امداد نہیں پہنچ پاتی۔یہ حالات میں اپنی آنکھوں سے خود بھی دیکھ چکا ہوں۔گزشتہ رات بھی گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج تونسہ شریف کے کمروں میں رکھے ہوئے امدادی سامان پر  ایسے ہی  گروہ کے شرپسندوں نے دیواریں پھلانگتے ہوئے دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیا۔پچھلے کئی روز سے ایسے واقعات معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی اس طرح دھاوا بول کر  لوٹ مار کر کے  امدادی سامان  لوٹنے اور چھیننے کی کئی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔پہلے جہاں سیاسی لوگ امدادی سامان پر سیاست کرکے غیر متاثرہ افراد  اور اپنے ووٹرز کو نواز رہے تھے وہاں اب ان لٹیرے گروہوں نے ات مچا  دی ہے۔مجھے درخواست جمال خان،علاقہ پچادھ ،فاضل پور اور تونسہ شریف سے بھی مسلسل کئی فون کالز آ چکی ہیں کہ اس مسئلے پر آواز اٹھائیں ، لوٹ مار کرنے والے مافیا اور گروہ  حقداروں تک کچھ نہیں پہنچنے دے رہے۔ان ظالم لوگوں کی بد نیتی  اور لوٹ مار  کی وجہ سے غریب لوگ متاثرہ ہونے کے باوجود امدادی سامان سے محروم ہو  رہے ہیں۔کچھ ایسے شرپسند  عناصر اور پیشہ ور بھکاری جن کا تعلق سیلاب زدہ علاقوں سے  بھی نہیں ہے وہ بھی انڈس ہائی وے سمیت مختلف متاثرہ علاقوں میں جانے والی سڑکوں پر خیمے لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں جو امدادی سامان کی گاڑیوں پر دھاوا بول کر  زبردستی سارا سامان لوٹ لیتے ہیں۔دوسری  طرف کچھ جرائم پیشے لوگ جن کی سرپرستی مقامی سیاستدان اور وڈیرے کرتے ہیں وہ روڈوں کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں جو بھی امدادی سامان کی گاڑی آتی ہے اسے روک کر پہلے تو یہ اصرار کرتے ہیں کہ فلاں علاقہ سیلاب زدہ ہے وہاں یہ امدادی سامان تقسیم کرنے کیلیے لے چلو  تاکہ وہاں  جا کر یہ امدادی سامان لوٹ لیا جائے اور اگر وہ گاڑی پر امدادی سامان لے جانے والے لوگ ان کی بات نہ  مانیں تو یہ جھگڑا کرکے دھاوا بولتے ہوئے زبردستی سارا امدادی سامان لوٹ لیتے ہیں پھر مختلف جگہوں پر جمع کرکے بیچ دیتے ہیں۔لوٹ مار کرنے والے ان شرپسند گروہوں میں نوجوان لڑکے،مرد و خواتین شامل ہیں۔کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈویژن لیاقت علی چٹھہ نے سیلاب زدگان کے امدادی قافلوں پر لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے مستحقین تک اشیاء پہنچانے کیلئے قافلوں کی سکیورٹی اور رہنمائی کے احکامات جاری کردئیے ہیں کمشنر نے ریجنل پولیس آفیسر،ڈپٹی کمشنرز اور انتظامیہ کو مراسلہ جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ سیلاب زدگان کیلئے بھیجے جانے والے سامان کی لوٹ مار کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ انتظامیہ ڈکیت اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

پیشہ ور بھکاری سڑک کنارے بیٹھ کر امدادی سامان کے ٹرک لوٹ لیتے ہیں۔لوٹ مار کی وجہ سے  امدادی سامان مستحقین تک نہیں پہنچ رہا۔مخیر حضرات کو بھی امداد سامان کی تقسیم میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔انتظامیہ لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ سامان لانے والے مخیر حضرات اور فلاحی تنظیموں کے قافلوں کو مکمل سکیورٹی دی جائے۔مستحق سیلاب زدگان تک امداد کی شفاف ترسیل کیلئے رہنمائی کی جائے۔ڈویژن میں فلڈ کنٹرول فعال رکھے جائیں۔ضلعی حدود میں قائم استقبالیہ کاونٹرز فلاحی تنظیموں کی ہرممکن معاونت کریں۔پاکستان کے دیگر اضلاع سے آنے والی امدادی ٹیموں کی این جی اوز اور مخیر حضرات حقیقی سیلاب متاثرین تک امداد پہنچانے کیلیے بہت زیادہ محتاط رہیں ۔یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ پاکستان کے دوسرے اضلاع سے جو لوگ امدادی لے کر ان علاقوں میں جا رہے ہیں وہ سیلاب زدہ علاقوں سے پوری طرح آگاہ اور واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے  لوٹ مار کرنے والے گینگز اور مافیا ان سے سامان لوٹ لیتے ہیں اور وہ سامان حقیقی متاثرین تک نہیں پہنچ پاتا اس لیے وہ لوگ  امدادی سامان بھیجنے سے پہلے متعلقہ ضلعی  انتظامیہ سے رابطہ کرنے کے بعد مکمل پلاننگ کے تحت  ضلعی انتظامیہ و مقامی تھانے  سے  سیکورٹی حاصل کر کے ان  سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان  کی گاڑیاں لے کر  جائیں جہاں وہ  امدادی سامان تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور تقسیم کرنے سے پہلے اس علاقے کے لوگوں کے شناختی کارڈ نمبر پر مشتمل فہرستیں بنوائیں اور صرف اصل شناختی کارڈ پر متعلقہ آدمی کو اپنے ہاتھوں سے امدادی سامان دیں۔حکومت وقت ایسے لوٹ مار کرنے والے گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرے جو امدادی سامان کی اشیاء لوٹ لیتے ہیں اور ان کے گھروں پر چھاپہ مار کر راشن وغیرہ بھی برآمد کیا جائے۔گورنمنٹ جو امدادی سامان سیلاب متاثرین کیلیے بھیج رہی ہے وہ اصل حقداروں تک پہنچانے کیلیے اسٹنٹ کمشنر ،لینڈ ریکارڈ افسر ،متعلقہ پٹواری ما پانچ عدد متاثرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے کر فہرستیں بنوائی جائیں اور انتہائی باریک بینی سے اصل متاثرین کا ڈیٹا موقع پر  چیک کر نے کے بعد امدادی سامان تقسیم کروایا جائے۔ امدادی سامان کسی صورت بھی کسی وڈیرے سابقہ ناظم و چیئرمین یا کونسلر وغیرہ کے حوالے نہ کیا جائے۔