|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2022

کراچی:  وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف چین کے دورے پر ہیں، چینی حکومت سمیت سرمایہ کاروں سے اہم ملاقات بھی کررہے ہیں۔ چینی حکومت کی جانب سے سی پیک منصوبے سمیت دیگر شعبوں پر سرمایہ کاری کے حوالے سے بات کی جارہی ہے جبکہ چینی سرمایہ کاروں نے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے جس میں ایک پیشرفت کراچی میں پانی کامنصوبہ اور سرکلرریلوے خاص شامل ہیں۔سی پیک منصوبے سمیت دیگر منصوبوں پر بلوچستان کے اہم سیاسی شخصیات جو ماضی یا موجودہ حکومت کا حصہ ہیں ان کے مطابق وفاقی حکومتیں اہم فیصلوں میں انہیں کسی کھاتے میں نہیں لاتے، جس کی بہت ساری مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر نے یہ اعتراف کیا تھا کہ دورہ چین کے حوالے سے وفاقی نمائندگا توکجا بلوچستان حکومت سے بھی تجاویزلینے کی زحمت نہیں کی جاتی مشاورت کرنا تو دور کی بات ہے۔انہوں نے ایک بار یہ اعتراف کیا تھا کہ خود میاں محمد نواز شریف کے ساتھ اہم اجلاس میں شرکت کرچکاہوں خاص کر سی پیک منصوبے کے متعلق جب بھی تجاویز دینے کی کوشش کی تو ہماری نہیں سنی گئی بلکہ مشاورت کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی میں نے ذاتی طور پر بیان دیا تھا کہ بلوچستان کے اہم مسائل پر ہماری بات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ان کی ترجیحات حکومت میں کچھ اور اپوزیشن میں کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس بیان کے خدوخال سے یہ تجزیہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر بلوچستان ہر مرکزی حکومت کی ترجیح میں شامل ہوتا تو اس وقت بلوچستان میں بہت سارے منصوبے جو سی پیک کے علاوہ چل رہے ہیں ان سے فائدہ پہنچتا سی پیک تو چند عرصے پہلے شروع ہوا ہے ماضی کے پروجیکٹس سے بلوچستان کے کونسے جائز حق کو بھی تسلیم کیاگیا؟ گیس رائلٹی کی مد میں جو واجبات ہیں کیا ان کی ادائیگی ہوئی ہے؟ کیا اس پر بلوچستان کے وفاقی نمائندگان نے اب آواز بلند کی ہے؟ اس پر بات نہیں ہوسکتی بقول سابقہ وفاقی وزیر کہ ایجنڈے کی تیاری کے دوران ہمیں کچھ بتایا ہی نہیں جاتا اور نہ ہی ہم سے کوئی رائے لی جاتی ہے انہوں نے ایک بڑا انکشاف کیا کہ ریکوڈک، سیندک پروجیکٹ کے حوالے سے وفاقی حکومت اور کمپنی کو ملنے والے منافع پر میں نے نکتہ اٹھایا تو اس پر ایک صاحب برہم ہوگئے کہ آپ اجلاس میں بدمزگی کرنے کے لیے بیٹھے ہیں تو بتائیں یہ اجلاس ختم کردیتے ہیں انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے میاں محمد نواز شریف کی طرف دیکھا مگر انہوں نے اس صاحب کو کچھ بھی نہیں کہا پھر میں کچھ دیر خاموش رہا اور اس کے بعد میں بہانے سے اجلاس چھوڑ کر چلاگیااور مجھے ن لیگ کے اہم قائدین کے فون آنے لگے کہ آپ کا غصہ جائز ہے اگلے اجلاس میں آپ نے جونکات آج اٹھائے ہیں انہیں رکھے جائینگے اور اس پر عمل بھی کیاجائے گا۔

ہماری طرف سے سوال کیا گیا کہ پھر اجلاس ہوا؟ اور اس کا نتیجہ کیا نکلا؟انہوں نے کہاکہ اجلاس بہت سارے ہوئے مگر ایجنڈے طے شدہ ان کے اپنے تھے۔موجودہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی وفاقی حکومت میں شامل جماعت کے اہم رہنماء و سابق سینیٹر سے ہم نے حالیہ وزیراعظم کے دورے اور سی پیک پر سوال پوچھا کہ آپ کی جماعت سے کوئی تجاویز یا مشاورت پیشگی کی گئی؟ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کبھی ترجیحات میں نہیں رہا ہے بھلا وہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا جنہوں نے اپنے دور میں بلوچستان کے سینیٹرز کو اہمیت دی اور بھرپور تعاون کیا یواین سمیت دیگر ممالک میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے کے لیے بلوچستان کے سینیٹرز کو ساتھ لیکر گئے ہم نے اپنے پروجیکٹس سمیت دیگر مسائل کو عالمی سطح پراجاگر کیا اور بلوچستان کے سیاستدانوں اور صحافیوں کے چائناکے دورے بھی ہماری کاوشوں سے شروع ہوئے مگرالمیہ تو یہ ہے کہ ان دوروں پر جانے والے افراد نے کوئی معلومات نہیں لی اور یہ کہاکہ ان کی انگریزی ہماری سمجھ سے بالاتر تھی تو آپ اندازہ لگائیں کہ ہم کس طرح سے اپنا مقدمہ بڑے فورم پرلڑسکتے ہیں اور اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں؟انہوں نے کہاکہ افسوس کہ وفاقی حکومتوں کی عدم دلچسپی اور ہمارے نابود نمائندگان کی وجہ سے بلوچستان کو کاغذی پیکج کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ کو اگر زیادہ ترجیح ملتی ہے تو اس کی وجہ ایک مضبوط جماعت کی حکومت اور مؤثر طریقے سے وہ اپنی جنگ لڑتے ہیں، بلوچستان میں مخلوط حکومت اور وفاقی نمائندگان کی اپنی نالائقی کو کسی طور نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

انہوں نے اپنے ذاتی تجربات شیئر کرتے ہوئے کہاکہ جب تک آپ کے پاس اپنا بڑا میڈیا نہ ہو اور آپ کی مکمل نمائندگی میڈیا کے اندر نہ ہو جتنا بھی شور مچائیں لوگوں تک نہیں پہنچ سکے گا البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی حد تک تو ہم بات کرتے ہیں مگر الیکٹرانک میڈیاآرگنائزیشن بلوچستان کی نمائندگی کے لیے ناگزیر ہے اس کے بغیر بلوچستان کے حقوق کاحصول ممکن نہیں ہے۔پی ٹی آئی دور حکومت میں سردار یار محمد رند بھی بلوچستان کے اندر پی ٹی آئی کے شخصیات کی مداخلت پر کھل کر بات کرچکے ہیں کہ کس طرح سے بلوچستان کے فیصلے بنی گالہ میں ہوتے رہے ہیں اور دو شخصیات کی جنگ کی وجہ سے ہماری بات نہیں سنی گئی۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ تمام مرکزی جماعتوں کیلئے بلوچستان کی پسماندگی ومحرومیاں کھوکھلے دعوؤں کے سوا کچھ نہیں البتہ بلوچستان کے منصوبوں سے اپنے حصے کا منافع لینااور کمپنیوں کے ساتھ معاہدے میں بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کو کھاتے میں لائے بغیر خود تمام شرائط طے کرنا بالادستی کی نفسیات کو واضح کرتا ہے۔