|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2022

خان محمود خان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے محراب خان جانشین کے طور پر مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بہت سی اقوام کی خود مختاری چھین کر ان کی آزادی ، غلامی میں بدل دی تھی۔ بہت سے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد 1838ء کو جب انگریز افغانستان پر حملہ کرنا چاہتے تھے تو وہاں پہنچنے کے لیے انھیں بلوچستان کے علاقوں سے گزرنا تھا اور اس سلسلے میں وہ درّہ بولان کے راستے کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تاہم انہیں درّہ بولان سے گزرنا اس لیے مشکل پڑ رہا تھا کیوں کہ حاکمِ قلات خان محراب خان افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے اپنی سرزمین کی سرحدوں کو استعمال کرنے کے لیے کسی طرح بھی راضی نہیں تھا۔
انگریزوں نے اس سلسلے میں لیفٹیننٹ لیچ کو بلوچ حکومت سے بات چیت کے لیے ایک نمائندہ کے طور پر بھیج دیا مگر خان محراب خان نے انکار کردیا۔ حالاں کہ خان محراب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے بعض سردار اور معتبرین ان سے خفا تھے اور خان کو چھوڑنے اور انھیں ناکام کرنے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں تھے۔ ان تمام مشکلات اور مجبوریوں کے باوجود خان محراب خان نے انگریزوں کی غلامی کو گوارہ نہیں کیا۔ اور اس کی تابعداری کو اپنے لیے عیب جانا۔
انگریز جب درّہ بولان سے ہوتا ہوا کوئٹہ پہنچا تو وہاں کچھ حریت پسند بلوچوں نے وطن کی حفاظت کی غرض سے انگریز سپاہیوں کے کچھ دستوں کو مالی اور جانی نقصان پہنچایا حالاں کہ ان کے اس عمل کا خان کو کوئی خبر نہیں تھا۔ یہ محض قومی محبت اور خودمختاری کے جذبے کے تحت فرنگیوں سے لڑے تھے۔
انگریزوں نے جب کابل کے شاہ امیر دوست کا تخت چھینا اور وہاں سے فراغت کے بعد گورنر جنرل ہندلارڈآک لینڈ کی طرف سے انہیں حکم ملا کہ خان قلات محراب خان پر حملہ کیا جائے۔چنانچہ 1839ء کو سات ہزار فرنگی فوجی، ریاست قلات پر حملہ کرنے کے لیے کوئٹہ سے روانہ ہوئے۔ خان قلات کو پہلے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ انگریز ان کے وطن پر حملہ آور ہوں گے اس لیے انہوں نے پیشگی جہاد کا اعلان کیا تھا اور اپنے مختلف سرداروں کو اس سلسلے میں پیغام بھیجا لیکن سرداروں نے انگریز کے حملے کو اپنی سرزمین پر حملہ نہ سمجھا اور اس آڑے وقت میں انہوں نے خان کی مدد نہ کی۔
جب خان محراب خان نے اپنے مزاحمت کار سپاہیوں کو یکجا کیا تو سرداروں کی منافقت اور بے وفائی کی وجہ سے ان جان نثاروں کی تعداد صرف 300 رہ گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود محراب خان جنگ کے لیے آمادہ تھے۔ ان کے دربار میں ایک معتبر شخص آخوند محمد صدیق نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اس وقت جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر قلات سے چلے جائیں اور جب آپ کی قوت مضبوط ہو تو آپ انگریزوں پر حملہ کریں۔ خان نے اس کا جواب دیا کہ میں جانتاہوں کہ انگریز انگلستان، اور ہندوستان کے حاکم ہیں اور انہوں نے قندھار پر بھی اپنی حاکمیت قائم کی ہے اور اس وقت ان کا سامنا کرنا مشکل ہے مگر میں اپنی زمین چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ میرے والد کا خون اس زمین کے لیے بہا ہے۔ میں اپنی زمین چھوڑ کر اپنا نام تاریخ میں بدنام نہیں کرنا چاہتا۔ اور نہ ہی میں غلامی قبول کرسکتا ہوں۔ میں غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینا پسند کروںگا۔
چنانچہ 13 نومبر 1839ء کو انگریز ی فوج قلات پر حملہ کرتی ہے اور گھمسان کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ دونوں طرف سے لشکر ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور بلآخر دشمن کی بندوق سے نکلی ایک گولی محراب خان کو لگتی ہے اور وہ وطن اور بلوچ غیرت کی خاطر جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ان کے ساتھ شہید ہونے والے ساتھیوں میں میر عبد الکریم رئیسانی، میر ولی محمد خان شاھی زئی مینگل، میر داد کریم شاھوانی، فضل لہڑی، نبی بخش جتوئی، قیصر خان، شاہ دوست بزنجو، محمد رضا وزیر خیل، نور محمد، تاج محمد اور دیگر بہت سے ساتھی شامل تھے۔ انگریزوں کی طرف سے چار کپتان، دو لیفٹیننٹ، ایک علم بردار، ایک ایڈ جوائنٹ کے علاوہ 138 افراد بلوچ مزاحمت کاروں کے ہاتھوں مارے گئے۔
محراب خان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اپنے حامی حاکم کے طور پر شاہنوازخان کو خان قلات کے منصب پر بٹھایا۔ اور یوں قلات کی ریاست انگریز حاکمیت کے تحت آگئی، اور بلوچوں کی خودمختاری چھن گئی لیکن بلوچوں نے اس غلامی کو قبول نہیں کیا اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔
12 اگست 1840ء کو سردار دودا خان مری اپنے بیٹے کے کمان میں ایک لشکر تشکیل دیتا ہے اور انگریز حاکمیت سے بغاوت کرتا ہے۔ چنانچہ انگریز بلوچ قوت کے مجتمع ہونے کے ڈر سے بلوچ سرزمین کو مختلف ٹکڑوں میںتقسیم کر تا ہے ۔ 1882ء میں کوئٹہ اور سبی کو الگ کرتے ہیں۔ 23 مارچ 1892ء کو بلوچستان کے ایک حصے کو ایران میں شامل کرواتے ہیں اور کچھ علاقے جن میں ہلمند وغیرہ شامل تھے، کو 1896ء میں افغانستان کو دیتے ہیں۔ یوں بلوچ مختلف ملکوں کے حاکموں سے الجھ پڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
جب بلوچستان کے ایک حصے سیستان پر ایران قبضہ کرتا ہے تو میر دوست محمد بارکزئی اور داد شاہ جیسے سرمچار مزاحمت کرتے ہیں اور سرزمین کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ جب فرنگی مکران پر قبضہ گیر ہوتے ہیں تو 31 جنوری 1898ء کو میر بلوچ خان نوشروانی مزاحمت کا پرچم بلند کرتا ہے اور ساتھیوں سمیت شہید ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے مختلف حصوں میں بلوچ حریت پسند ظلم و جبر اور قابضین کے خلاف اٹھتے رہے۔ یعنی رخشان، جھالاوان، اور سراوان میں بھی مزاحمت کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ان میں نورا مینگل، سردار نورالدین مینگل، میر علی دوست اور پیر دوست بھی شامل ہیں۔
1947ء سے پہلے مختلف ادوار میں جہاں بلوچ حریت کی چنگاریاں جزوی طور پر اٹھتی رہیں، مگر عملی طور پر یہ خطہ انگریز حاکمیت کے زیر نگیں رہا۔ خان سفر خان دوم، خدا داد خان، شیرخان، محمود خان دوئم، اعظم خان سے احمد یار خان تک یہ لوگ فرنگی اور پہلوی کے تابع فرمان ریاستی حکمران رہے۔
واضح رہے کہ ریاست قلات ہند و پاک کا حصہ نہیں تھا بلکہ انگریز حاکموں کے ہاں اس کی الگ حیثیت تھی۔ اس لیے جب 3 جون1947ء کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا تو اس کے مسودے میں قلات کا نام شامل نہیں تھا۔ آخری خان قلات احمد یار خان نے انگریز حکومت سے پاک و ہند کے معاملے سے علیٰحدہ بات چیت کر کے اپنی ریاست کی خودمختار حیثیت کے لیے بات چیت کی۔ اور آل انڈیا ریڈیو نے 11 اگست 1947ء کو ریاست قلات کی آزادی کی خبر نشر کی۔ چنانچہ بلوچ قوم اپنی آزاد و خودمختار حیثیت برقرار رکھنے کی خواہش مند تھی لیکن بعد ازاں خان قلات نے بلوچ قوم کی مرضی کے بغیر ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔اس وقت سے لے کر اب تک بلوچستان اسلام کے نام پر بننے والے مملکتِ خداداد کا ایک حصہ ہے جسے 1971ء میں انتظامی طور پر صوبے کی حیثیت دی گئی۔ تاہم بلوچوں میں خان محراب خان کی روایت اب بھی زندہ ہے اور وقتاً بوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔