|

وقتِ اشاعت :   November 17 – 2022

اقبال ایک انقلابی شاعر تھے ملت اسلامیہ نے اقبال کے لئیے کئی القابات و خطابات تجویز کئیے کوئی انھیں حکیم ملت کہتا ھے
اور کوئی ترجمان حقیقت کوئی انھیں شاعر اسلام
کہتا ھے یہ تمام القابات بجا اور درست ھے لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرھن ہیں جو
اسکی قامت پر راست آتے ہے وہ پیام بر خودی بھی ہے اور مبلغ ارتقا بھی اور رمز
شناس عشق بھی لیکن اقبال کی تمام شاعری اور اسکے افکار اور جزبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمنائے انقلاب ہے وہ صرف ملت اسلامیہ
ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں اور اسکے ہر شہ میں انقلاب کا آرزو مند ھے انقلاب جس جزبے سے پیدا ھوتا ھےاقبال اس جزبے کو عشق کہتا ھے
اب سوال ییدا ھوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ھے اس کا یہ جواب کافی ھو گا کہ وہ اصلی اسلام اور اسکے پیدا شدہ علم و فن اور سیاست و معاشرت کا آرزو مند ھے
انسانی زندگی میں دو بڑی قوتیں کارفرما ہیں ایک عقل دوسرے کا نام عشق ھے ایک کا تعلق دماغ سے ھے اور دوسرے کا دل سے
اقبال شاعر بھی ھے اور مفکر بھی وہ حکیم بھی ھے اور کلیم بھی وہ خودی کا پیغامبر بھی ھے اور بے خودی کا رمزشناس بھی وہ تہزیب و تمدن کا نقاد بھی ھے اور محی الملت والدین بھی وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی اور تحقیر انسان سے دردمند بھی اس کے کلام میں فکر و زکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر یک آئینہ دگر ایسے ہمہ گیر دل و دماغ کے مالک اور اور صاحب عرفان و وجدان کے افکار اور تاثرات کا تجزیہ اور اس پر تنقید کوئی آسان کام نہیں اس نے زیادہ تر شعر ہی کو زریعہ اظہار بنایا کیونکہ فطرت نے اس کو اسی حیثیت سے تلمیز الرحہان بنایا تھا
کسی بڑے شاعر کے کلام میں ایک مربوط نظریہ حیات و کائنات کو اخز کرنا ایک دشوار کام ھے شاعر منطق کے پابند نہیں ھوتی اور شاعر کا کام استدلالی حیثیت سے کسی نظام فلسفہ کو پیش کرنا نہیں ھوا اقبال نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ھے اسکی وجہ یہ تھی کہ اسکا فکر کبھی جزبے سے خالی نہیں ھوتا تھا اور حقیقت میں وہ اسرار حیات کو نثری استدلال میں پیش کرنے کا قائل ہی نہ تھا وہ رازی اور بوعلی کا مداح نہ تھا اسکے پیش نظر ہمیشہ رومی جیسا عارف رہتا تھا جس کت فکر کا ساز بے سوز نہ تھا اس فرق کو اقبال نے لاتعداد اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ھے
اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ھے لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ھوا نہ ھو گا اقبال پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں محققانہ تصانیف بہت کم ہیں میرے نزدیک اقبال پر دو کتابیں نہایت عالہانہ نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں ڈاکٹر یوسف حسین خان کی روح اقبال اور مولانا عبدالسلام ندوی کی کتاب اقبال کامل ان دو کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور اسکی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو معتاج تشریع اور تشنہء تنقید باقی رہ گیا ہو لیکن اقبال کے افکار میں اتنی گہرائی اتنی پرواز اور اتنی وسعت ہے کہ ان کتابوں کے جامع ہونے کے باوجود بھی مزید تصنیف کے لئیے کسی معزرت کی ضرورت نہیں اقبال کا کلام ایک طرح کا مزئبی صحیفہ ہے اور مزئبی صحیفوں کی شر حوں کی طرح پر لکھنے اور سوچنے والا اپنے اندازہ نگاہ اور انداز بیاں سے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کر سکتا ھے
مختلف ادوار میں اقبال کے فکر میں ارتقا کے مدارج کا مطالعہ زیادہ مشکلات پیش نہیں کرتا بانگ درا میں جس کا پہلا ایڈیشن 1934 ع میں شائع ھوا انہوں نے خود اپنی نظموں کو زمانی لحاظ سے مرتب کیا ھے بعد میں شائع کردہ مجموعوں کی طباعت کا زمانہ بھی یقینی طور پر معلوم ھے چنانچہ ابتدا سے انتہا تک اقبال کے فکر کا ارتقا مطالحہ کرنے والے پر روشن ھو جاتا ھے اور اس زمانی ترتین کی بدولت اقبال کی شاعری اور اس کے تفکر کا ارتقا بھی واضع ھو جاتا ھے

سینہ تھا ترا مشرق و مغرب کا خزینہ

دل تھا ترا اسرار و معارف کا دفینہ

ہر شعر ترا بام ترقی کا ہے زینہ

مانند مہ نو تھا فلک سیر سفینہ

دل تیرا مئے عشق سے لبریز تھا ساقی

اور درد کی لزت سے طرب خیز تھا ساقی