|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2023

بلاشبہ اس دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے کا نائب ہونا اعزاز کی بات بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان پر ذمہ داریاں بھی عائد ہو جاتی ہیں۔ دنیا میں امن قائم کرنا اور اس کے لیے جدو جہد کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اس کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں مگر مختلف ممالک کے درمیان تسلسل سے رابطہ کاری پیدا کرتے رہنا اور امن کے لیے سہولیات فراہم کرنا سب سے اچھا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ملک اس طرح کی جدوجہد نہیں کر سکتا۔ صرف وہ ممالک جو عالمی سطح پر اثر و رسوخ کے حامل ہیں یا وہ جن پر دوسرے ممالک اعتبار کرتے ہیں ہی ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ پاکستان انہی چند ممالک میں سے ایک ہے جو تسلسل کے ساتھ2007 سے’امن’ کے نام سے بحری سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے اور غیر روایتی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی جدو جہد میں مصروف عمل ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ‘امن’اب پاک بحریہ کا ایک برانڈ بن چکا ہے جو روایتی اور غیر روایتی چیلنجز دونوں سے نمٹنے کے لیے ٹریننگ کا بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔
‘امن’ مشق دنیا کو بحری انٹیلی جنس شئیرنگ، عالمی امن و استحکام اور بالخصوص سمندری وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے بڑا برانڈ بن چکا ہے۔ اس کے بنیادی مقاصد میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام، منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کی منتقلی، بحری دہشت گردی، بحری قزاقوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جامع طور پر نمٹنا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مشق امن جس کو اب ‘امن23’ کے نام سے منسوب کیا جارہا ہے چین پاکستان اقتصادی راہداری با لخصوص گوادر پورٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی سعی ہے۔ امن 23 جو فروری 2023 میں منعقد ہونے جا رہی ہے اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ایک عالمی ایونٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس میں ہر بار حصہ لینے والے ممالک کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو ریاست پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ سالوں میں ریاست کی ان کامیاب پالیسیوں کا کریڈٹ پاک بحریہ کے سر ہے جنہوں نے دور اندیش پالیسیوں کی بدولت نہ صرف خطہ جنوبی ایشیاء بلکہ دیگر دوست ممالک کے ساتھ بھی بہترین کوارڈینیشن کو برقرار رکھا۔ پاک بحریہ کے خیر سگالی کے دورے اور تسلسل کے ساتھ امدادی اشیاء پہنچاتے رہنا ہی پاک بحریہ کی کامیابی کا راز ہے۔ مشہورسکالر البرٹ آنسٹائن کے قول ‘ امن کو زبردستی حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو باہمی ہم آہنگی کے ذریعے ہی پائیدار بنایا جا سکتا ہے ‘ کو اپنا راستہ بناتے ہوئے پاک بحریہ نے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی اپنائے رکھا۔ ملکی سطح پر زلزلہ سیلاب کے وقت ہیلتھ کیمپس ہوں یا بین الاقوامی سطح پر خطہ افریقہ میں امداد ی اشیاء پہنچانا، پاک بحریہ نے ہر مشکل وقت میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کی ہیں۔ اسی پروفیشنلزم کی بدولت امن مشقیں کامیابی کے ساتھ فروری 2023 میں آٹھویں بار منعقد ہونے جا رہی ہیں جس میں اس بار 100 سے زائد ممالک کو مدعو کیا جا رہا ہے۔ یا د رہے 2007 میں پہلی امن مشق میں 28 ممالک نے حصہ لیا تھا۔ اس حوالے سے دوست ممالک کی بڑھتی تعداد اس بات کی غمازی بھی کرتی ہے کہ دنیا پاکستان اور اس کی بلیو اکانومی پالیسی پر چلنے کے لیے تیار ہے۔ پاک بحریہ نے سمندروں میں جارحانہ کی بجائے تعاون کی پالیسی کو اپنایا ہے جس کو اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے۔ دنیا اس بات کی معترف ہے کہ پاکستان نے گزشتہ ادوار میں معاشی و اقتصادی اور خارجہ و فوجی امور پر کمال مہارت کے ساتھ پیش قدمی کی ہے۔
پاک بحریہ نے ریاستی پالیسی پر من و وعن عملدرآمد کیا اور آج اپنے آپ کو اس قابل کر لیا ہے کہ تسلسل کے ساتھ ایک عالمی ایونٹ منعقد کروانے جا رہی ہے اور دنیا بھر کی بحری افواج پاک بحریہ کے ساتھ بلیو اکانومی اور سمندروں میں تجارت و انسداد دہشت گردی پالیسی پر تعاون کے لیے تیار ہے۔ مزید برآں امن مشقیں 23 دنیا کی سب سے بہترین مشقیں ثابت ہو ں گی جن کی وجہ سے سمندروں میں عالمی تجارت کو بے حد فائدہ ہو گا۔ ان مشقوں کی وجہ سے تمام دوست ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پاکستان کی کوششیں بھی باآور ثابت ہوں گی جبکہ سی پیک کے تحت گوادر پورٹ کو بھی نمایاں کوریج حاصل ہو جائے گی جس سے ملک کے لیے مزید معاشی و اقتصادی مواقع پیدا ہونگے۔ ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کار اور بزنس مین پاکستان تشریف لا رہے ہیں جس سے ملک کا سوفٹ امیج قائم کرنے میں بھی امن مشقیں 23 کارگر ثابت ہونگی۔ نیز امن مشقیں ملک کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں جس کے لیے نہ صرف عوام بلکہ پوری دنیا انتظار کر رہی ہے۔