|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2023

اجتماعی شعور چل بسا، قوم کا چرواہا دنیا میں نہیں رہا۔

راستہ دکھانے والا ہمیں چھوڑ گیا۔

وہ ایک شخص نہیں ایک آواز تھی۔ ایک ایسی آواز جس نے قومی شعور و آگہی اور احترام آدمیت کے موضوعات کو اپنے شعری حسن اور مؤثراظہار کے ذریعے قاری تک پہنچایا۔

وہ شخص وہ آواز کوئی اور نہیں تھابلکہ میرا پیارا دوست اور بلوچی شاعر قاضی مبارک تھا۔
قاضی مبارک بلوچی زبان کے لیجنڈ شاعر تھے۔

بلوچ سماج میں اْن کی شاعری سب سے نمایاں رہی ہے۔ انہوں نے بلوچ قوم کو تعلیم کی طرف راغب کیا،انسانی اقدار کی پاسداری،مظلوم ماہی گیروں اور کسان بلوچوں کے لیے اپنی زندگی صرف کی۔ قاضی ایک روشن خیال ترقی پسند شاعر تھے۔ انکا ادبی سرمایہ نہ صرف بلوچی زبان بلکہ پاکستانی ادب کے لیے بڑا اثاثہ ہے۔

بلوچی شعر و ادب کا کوئی تذکرہ قاضی مبارک کے بغیر نامکمل ہے۔

انہوں نے زندگی ایک خاص مشن کے طور پر گزاری جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ قاضی مبارک ہمہ گیر شخصیت کے مالک اور ایک گل دستے کی مانند تھے۔
قاضی مبارک کی شاعری میں عوامی اور انقلابی رنگ نمایاں ہے۔ انہوں نے بلوچی زبان اور شعر و ادب پر بہت کام کیا۔ قاضی مبارک بلوچی زبان کے بڑے تخلیق کار تھے۔ وہ سندھی زبان کے شاعر شیخ ایاز اور پشتو شاعر اجمل خٹک کی طرح اپنی قوم کے نمائندہ شاعر تھے۔ اْن کے لہجے میں جہاں گھن گرج کا عنصر نمایاں تھا وہیں رومانیت بھی پائی جاتی تھی۔
جس کا جو جی چاہے قانون وہی،
نہ پیمانہ کوئی ترازو کچھ بھی نہیں۔
میں اک ایسے پریم نگر آ پہنچا ہوں،
بوجھل پلکیں بکھرے گیسو کچھ بھی نہیں۔
میں نے اپنے اندر جھانکا تو دیکھا،
چار سو سب کچھ ہے ہر سو کچھ بھی نہیں۔
کوہ قاف سے آئی ہے وہ شہزادی،
اس پہ چلے گا سحر نہ جادو کچھ بھی نہیں۔
ان بوسیدہ ہڈیوں میں کیا رکھا ہے،
عمر رواں نہ زور نہ بازو کچھ بھی نہیں
قاضی نے ساری زندگی اپنی قوم کے لیے جنگ و جدل میں گزاری۔

بلوچ بزرگ سیاستدان شہید اکبر بگٹی کی شہادت کے موقع پر جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

ان کے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر قمبر بلوچ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ ایک باپ کے کندھے پر جوان بیٹے کی میت اٹھانا معمولی بات نہیں ہے۔ یہ قاضی کی ہمت تھی جنہوں نے یہ وزن برداشت کیا۔ وہ بلوچی زبان کے بہت بڑے اور ہمہ جہت شاعر اور تخلیق کار تھے۔ اْنہوں نے بلوچی زبان و ادب کے لیے بہت کام کیا ۔
قاضی مبارک اپنی شاعری میں کہتا ہے۔
قدردانی کی یہاں شرط بس اک موت ہے
آپکی بھی قدر ہوگی پہلے مرتو جائیے!
قاضی مبارک کا جنم بلوچستان کی ساحلی بستی پسنی میں ہوا۔ پسنی کی خوبصورتی وہاں پائے جانے والے ریت کے ٹیلوں کی وجہ سے ہے۔ سورج کے طلوع اور غروب کا منظر شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتا ہے۔پسنی کا نام ہی دراصل ریت کے ٹیلوں کی وجہ سے پڑا۔ یہ بلوچی کا لفظ ہے۔ جس کا مطلب ہے پھنسنا، یعنی جیسے گاڑی، انسان یا کوئی جانور ریت میں دھنس جاتا ہے۔ تاہم بعض مؤرخ اس نام کے لفظی مطلب سے متفق نہیں ہیں۔
پسنی ء ِ ریکاں چاراناں
منی دل بوتگ دیوانہ
مشہور و معروف بلوچی کلاسیکل گلوکار محمد جاڑوک بلوچ نے مکران کے ساحلی شہر پسنی کوگنگنایا۔ جاڑوک کہتا ہے کہ پسنی کی ریت کو دیکھتا ہوں تو میرا دل پسنی کا دیوانہ ہوجاتا ہے۔
پسنی نے بڑی شخصیات پیدا کیں۔ جن میں انقلابی شاعر قاضی مبارک، نامور بلوچی شاعرانور صاحب خان، شاعر منیر مومن، بلوچی گلوکارہ گل جان گلو، بلوچی گلوکار نورخان بزنجو، گلوکار نصیر پسنی والا، ٹی وی اداکار انور اقبال اور دیگر شامل ہیں۔ انور صاحب خان نہ صرف ایک اچھے شاعر تھے بلکہ وہ ایک تھیٹر رائٹر بھی تھے۔

وہ اپنے تھیٹر کے ذریعے پسنی کے ماہی گیروں کی حالت زندگی اور مشکلات کو اجاگر کرتے تھے۔ قاضی کی طرح انور صاحب خان بھی میرے اچھے دوست تھے۔ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ میرا جب بھی پسنی کا دورہ ہوتا تو انور صاحب خان اور قاضی کے مہمان خانے میں ضرور حاضری دیتا تھا۔
انور صاحب خان کو انکی شاعری اور قلم کاری کی پاداش میں اغوا کرکے گن پوائنٹ پر ویڈیو بیان جاری کروایا گیا۔ بازیابی کے بعد وہ ویڈیو بیان کو ہضم نہ کر پائے اور ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے۔
قاضی مبارک، انور صاحب خان سے شاعری میں ایک ہاتھ آگے تھے۔

تاہم انور صاحب خان ایک اچھے لکھاری تھے۔ ان کے ڈرامے (تھیٹر) پورے بلوچستان میں مشہور تھے۔
پسنی نے ٹی وی اداکار انور اقبال کو بھی جنم دیا۔ ٹی وی اداکار انوراقبال بلوچ نے نہ صرف پاکستانی فلمی صنعت میں مقام بنایا بلکہ انہوں پہلی بلوچی فلم ھمل ماہ گنج بھی بنائی۔ جو بلوچ اور پرتگالی سامراج کی جنگ سے متعلق تھی۔
بلوچی انقلابی شاعر قاضی مبارک نے اپنی شاعری سے بلوچ تحریک کو ایک جذبہ اور حوصلہ فراہم کیا۔ قاضی صاحب ایک الگ تھلگ اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شاعری سے نادیدہ قوتیں پریشان اور نالاں تھیں۔ انہیں بلوچ نوجوان اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بلوچ مزاحمتی تحریک کی عکاسی کرتی ہے۔

انہوں نے جہد مسلسل اور انقلاب کی شاعری کی ہے۔

ہمیں قاضی کی شاعری اور تعلیمات کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔۔

قاضی مبارک بلوچستان کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کے شاعر تھے۔
قاضی مبارک تربت کے علاقے سنگانی سر میں ہم سے جدا ہوگئے۔

ان کی موت نے پورے بلوچستان کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ انکے جسد خاکی کو تربت سے پسنی ایک ریلی کی شکل میں لایا گیاتوپسنی میں ماتم بچھ گیا۔ پسنی ایک بہادر سپوت سے محروم ہوگیا۔ اب پسنی میرے لئے ایک کھنڈر بن گیا ہے جہاں مجھے نہ قاضی ملے گا اور نہ ہی انور صاحب خان۔

قاضی مبارک کو میرا سرخ سلام!