|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2023

تین اضلاع پنجگور ،کیچ اور گوادر پر مشتمل مکران ڈویژن جغرافیائی لحاظ سے اس خطے کا ایک اہم علاقہ ہے، پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور کے بعد عالمی قوتوں کی نظریں بھی اس خطے پر مرکوز ہیں۔

کجھور اور مچھلی کی پیداوار کی وجہ سے معاشی حوالے سے یہ خطہ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے کافی حدتک مستحکم ہے۔ مکران کی سرحدیں ایران سے ملنے کی وجہ سے بارڈر ٹریڈ اس خطے کے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔قبائلی اور جاگیر دارانہ سماج نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کا یہ خطہ ماضی قریب میں قوم پرستانہ سیاست کا گڑھ رہا ہے

۔اور اب بھی قوم پرست حلقے اس خطے میں مضبوط وجود رکھتے ہیں مگر ماضی کے مقابلے میں کافی حد تک کمزور ہیں۔
1970 کے عام انتخابات میں مکران ڈویژن دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل تھا اور دونوں نشستیں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ )نے جیتی تھیں۔اس وقت مکران میں قوم پرستی کی سیاست عروج پر تھی اور اس علاقے میں قوم پرستوں کا طوطی بولتا تھا۔اس کے بعد وقتا” فوقتاً مکران میں قوم پرست سیاسی جماعتیں الیکشن جیتتی آرہی ہیں۔
1988 کے الیکشن میں قوم پرست بلوچستان نیشنل الائنس کے نام پر مکران میں جیت گئے تھے اور یہ سلسلہ 1997 کے الیکشن تک جاری رہا ۔

جب بی این پی متحدہ کو بلوچستان میں ایک معاہدے کے تحت وزارت اعلیٰ ملی تھی۔ اس خطے میں ہمیشہ قوم پرستوں کی جیت اور نظریاتی سیاست کی وجہ سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی نسبت تعلیم کی شرح بھی زیادہ ہے۔

بلوچستان کی بیوروکریسی میں مکران کے تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
12 اکتوبر 1999 کو جب پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا کر لولی لنگڑی جمہوریت کا خاتمہ کیا تو بلوچستان میں بھی قوم پرستی کی سیاست کو ایک جھٹکا لگا اور قوم پرستوں کے خلاف نئے لوگ لائے گئے۔2002میں جب پرویز مشرف کے زیر نگرانی ملک بھر میں انتخابات ہوئے تو وفاق میں مسلم لیگ ق نامی نئی جماعت کو متعارف کروایا گیا ۔

اور بلوچستان میں اقتدار بھی مسلم لیگ ق کے حصے میں آئی۔ قوم پرست حلقوں کے مطابق مشرف دور حکومت میں بلوچستان میں غیر سیاسی لوگوں کو لاکر اسمبلی میں بٹھایا گیااور قوم پرستوں کو دیوار سے لگانے کے لئے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ البتہ مشرف کے ناقدین مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔

جبکہ اسمبلیوں میں خواتین کی 33 فیصد نمائندگی سے خواتین کو مخصوص نشستوں پر بہتر انداز میں نمائندگی دی گئی۔
مشرف دور کے بعض اقدامات کو قوم پرست حلقے جمہوریت کے خلاف قرار دیتے ہیں اور بقول قوم پرستوں کے مشرف نے قوم پرستی کی سیاست کو کمزور کرنے کے لئے مختلف مافیاز کو کنگ پارٹی میں یکجا کیا اور قوم پرستوں کو توڑنے کے لئے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔البتہ دوسری جانب مشرف دور میں بلوچستان اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد چالیس سے بڑھا کر اکاون کردی گئی ۔

جس سے بلوچستان کے بعض علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں زیادہ نمائندگی ملی۔2002 کے الیکشن میں البتہ قوم پرستوں کو مکران بھر میں کامیابی ضرور ملی مگر کنگ پارٹی مسلم لیگ ق کو بھی مکران میں بھی نمائندگی ملی۔
2008 کے الیکشن میں البتہ قوم پرستوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا

۔اور مکران کے کچھ حلقوں میں اپنے حمایتی امیدواروں کو کامیاب کروانے میں کامیاب ہوئے۔
2013 کے الیکشن میں البتہ مکران بھر سے نیشنل پارٹی جس کی قیادت کیچ سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر عبدالمالک کررہے ہیں۔

مکران میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد مری معاہدے کے تحت ڈھائی سال بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے اور پہلی مرتبہ بلوچستان سے کوئی نواب اور سردار کے بجائے ایک مڈل کلاس سیاسی ورکر کو صوبے کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ ملا۔ حالانکہ 2013 کے الیکشن کے وقت بلوچستان میں انسرجنسی کی وجہ سے ٹرن آؤٹ بہت کم رہی اور بعض علاقوں میں دس فیصد سے بھی کم ووٹ ڈالے گئے۔ قدوس بزنجو جو ثناء اللہ زہری کی حکومت کو ختم کرکے وزیراعلیٰ بنے تھے وہ صرف پانچ سو کے قریب ووٹ حاصل کرکے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے اور بعد میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔


2018 کے عام انتخابات میں مکران میں قوم پرستوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ کیچ کی چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے تین پر نئی سیاست جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو کامیابی ملی۔ جبکہ دو نشستیں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے حصے میں آئی۔یہ بلوچستان کے پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ مکران سے قوم پرست کم نشستیں حاصل کرگئے، 2013 میں برسر اقتدار پارٹی نیشنل پارٹی مکران سمیت بلوچستان بھر میں ایک بھی نشست نہیں جیت سکی، البتہ بی این پی مینگل کو گوادر کی نشست پر کامیاب ہوئی۔ البتہ بی این پی کو مکران میں اتنی پذیرائی حاصل نہیں اور دو نشستیں بی این پی عوامی کے حصے میں آئیں۔


2024 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے اب تک مکران میں سیاسی گہما گہمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے البتہ نیشنل پارٹی اور گوادر میں ابھرنے والی ایک نئی تحریک حق دو عوام کو یکجا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حق دو کی قیادت جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمن کررہے ہیں اور بلدیاتی الیکشن میں گوادر میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد آنے والے الیکشن میں حق دو گوادر کے صوبائی اسمبلی اور کیچ کم گوادر کے قومی اسمبلی کی نشست پر مخالفین کو ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


بلوچستان کے معروف دانشور اور سابق بیوروکریٹ جان محمد دشتی چونکہ بی این پی کو خیرآباد کہہ کر بلوچستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم پر اپنے ساتھیوں اور ہمنواؤں کو یکجا کر چکے ہیں جبکہ کیچ سے تعلق رکھنے والا سید احسان شاہ جو کہ سنیٹر اور چار مرتبہ تربت شہر کی نشست پر رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں ، نے اپنی پارٹی پاکستان نیشنل پارٹی کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ ضم کرلیا جبکہ سابق صوبائی وزراء میر ظہور بلیدئی، اصغر رند اور میر عبدالرئوف رند پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں ۔

اور بلدیاتی انتخابات میں کیچ کی ضلعی چیئرمین میر اوتمان بلوچ بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوچکے ہیں۔
کیچ میں مزید سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے کا امکان ہے کیونکہ باپ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رہنما اب کسی اور پارٹی کا رخ کریں گے۔ پنجگور کے دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اصل مقابلہ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی سے متوقع ہے جبکہ گوادر میں حق دو تحریک کا مقابلہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل سے ہوگا۔

اس وقت مکران میں نیشنل پارٹی کو دوسری پارٹیوں پر کسی حد تک برتری حاصل ہے کیونکہ مکران بھر میں لوگ بڑی تعداد میں نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں جبکہ حق دو تحریک بھی مکران کے بعض حلقوں میں ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔اس مرتبہ مکران کے چند اہم سیاسی رہنماؤں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد مکران کی انتخابی سیاست میں اب پیپلز پارٹی ایک مضبوط طاقت بن کر سامنے آرہی ہے۔