|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2023

پاکستان روئے زمین پر شاید وہ واحد ملک ہے کہ جہاں انتخابات میں کامیابی سے لے کر حکومت سازی کے سفر تک کسی کو معلوم نہیں پڑتا کہ بھاری اکثریت کس کو حاصل ہو گی ؟پاکستانی سیاست کے تناظر میں اِس پیچیدہ سوال کو سمجھنے کے لیے ہر خاص و عام کو ادارہ جاتی سرویز پر نظریں جما نے کی ہر گز ضرورت پیش نہیں آتی ۔

عوام کی رائے ، مزاج اور طبیعت کس جانب ہے؟ اِس قسم کے فضول قیاس آرائیوں کی جستجو میں سرگردان رہنے کی بجائے عقل مندی اسی میں ہے کہ لوگ ( خواہ وہ کوئی قدآور دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ مقدر اور مستقبل شناس ہی کیوں نہ ہو) مقتدرہ کی پسند اور مزاج سے آشنائی رکھیں۔

اس ملک میں جمہوریت یا عوام کی رائے کی کوئی اہمیت ہے کہ نہیں؟ اس صداقت کے ادراک تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ عوام کے مزاج کے برعکس مقتدرہ کی طبیعت اور مقررہ اہداف کی طرف سوچنا شروع کردیں کہ اْن کا مزاج کیسا اور کس جانب ہے یہی وہ بنیادی علّت ہے

جس کی معلول کے طور پر پاکستان کی مقتدرہ زدہ نام و نہاد جمہوریت پسند سیاستدانوں کو تکلیف اور زحمت برداشت کرتے ہوئے عوام کے اندر جا کر کام کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے

نہ ہی پارٹی ڈسپلن پر پابند رہنے اور آئین و منشور کی تعین یا پھر پارٹی کے اغراض و مقاصد پر عمل درآمد سمیت کارکنان کو متحرک کرنے کے لیے پارٹی اداروں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک سیاستدان مقتدرہ کے سامنے اپنی کارکردگی کی شفافیت اور وفا شْعارانہ سرشت اور پاکیزگی دکھا کر ثابت کر ے کہ اْن سے بہتر کوئی نہیں ہے تاکہ ان کا یکتا کردار عوام کو نہیں (جو اِس ملک میں حشرات کی مانند زندہ ہیں) بلکہ مقتدرہ کو راضی ، خوش اور مطمئن کر سکے۔ اسی ایک مقصد کو سر کرنے کے لیے اسٹیڈی سرکلز کی بندوبست اور زیادہ دانشوری یا عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات پر فعالیت دکھا

کر عوام اور پارٹی کارکنان کے لیے ماضی کے عاشقوں کی طرح شیدائی اور ملنگ بن کر شہر اور بازاروں کے گٹر سے بدتر گلیوں میں گھومنے پھرنے یا کم آبادیوں پر مشتمل صحرا نما دیہاتوں اور گاؤں کی خاک چھاننے یا پھر تنظیم سازی کر کے پارٹی کی جڑوں کو عوام کے اندر پھیلا کر پیوست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اسی طرح اپنے فنڈز کو عوامی نوعیت کی اجتماعی اسکیموں پر خرچ بلکہ ضائع کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ؟
پاکستان کے سیاست دانوں میں اْچھل کْود کے فن سے واقف نامور سیاستدان شہباز شریف اور ان کے بڑے اور بَہادر بھائی نواز شریف کی سرگرمیوں اور اجتماعی اسکیموں کے متعلق ہم نے سْنا ہے کہ یہ دونوں بھائی چونکہ پنجابی قوم پرست ہیں۔( جو ایک زمانے میں’’ جاگ پنجابی جاگ‘‘ کے نعرے بْلند کر کے موجودہ دور تک عملاً اسی بیانیئے پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ عملی طور پر اِس پر کاربند بھی ہیں) اس لیے اِن بھائیوں نے ترقیاتی اسکیموں کے ذریعے اپنے حکومتی ادوار میں پنجاب کی شکل بدل دی۔

سی پیک کا منبع اگرچہ بلوچستان ہے جس سے پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی افادیت پر نازاں ہے۔

ان دونوں بھائیوں نے مقتدرہ اور بلوچستان کے نمائندوں اور اختیار داروں کی ملی بھگت سے سی پیک کے تمام فنڈز اور اہم ترین منصوبوں کو بلوچستان سے پنجاب منتقل کر دیا تھا مگر اس قدر ترقیاتی اسکیموں پر کام کرنے اور پنجاب کی شکل بدلنے کے باوجود مقتدرہ نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط اور اٹھارویں آئینی ترمیم پر معمولی پیش رفت کے سبب عملاً محسوس کیا تھا کہ ان پارٹیوں کی پیش قدمی ، رفتار اور خود سری کو اگر زمین بوس نہ کیا گیا تو نتیجے کے طور پر وہ بہت جلد یا بدیر اقتدار کی غلام گردشوں کی لذّتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ جائیں گے

پھر ان کے بچے جو امریکہ اور یورپ کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں یہ بھی کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے یاآئندہ کما سکتے ہیں ان سب سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے ، اس قسم کے سلسلے اگر مزید جاری رہے تو وہ دولت کی لوٹ کھسوٹ اور امریکہ اور یورپ کی پری شکل صنموں کے وصال سے محروم رہیں گے پس مذکورہ بالا گستاخیوں کی سزا کے طور پر مقتدرہ نے نواز شریف کو اقتدار سے بیدخل کر کے دیوار میں

چْن دیا تاکہ وہ آئندہ اس قسم کی سرگرمیوں کے متعلق توبہ کر لے جن سے مقتدرہ کے اختیارات اور مفادات کو خطرات لاحق ہوں۔ نواز شریف کے سوفٹ ویئر کو اپڈیٹ کرنے کے بعد وہ دوبارہ کبھی بھی مقتدرہ کی منشا کے برخلاف اقدام اْٹھانا تو دْور اس کے متعلق غور و فکر بھی کفر تصور کریں گے۔

اس تناظر میں احساسات اور تصورات کے تمام در اور دروازوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر کے دست بستہ غلاموں کی طرح وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار رہیں گے کہ جس میں مقتدرہ کی رضا مندی اور منشا شامل ہو اس قسم کے اوصاف کے مالک ایک شخص اگر یہ کہے کہ
” غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش ِاَشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّہِ طوفان کیئے ہوئے”
ہم سمجھتے ہیں کہ کہاں(الّن فقیر) نواز شریف اور کہاں(شہباز قلندر) غالب کا مذکورہ شعر! کچھ لوگ اس شعر کو مقتدرہ کے لئے ایک تنبیہ اور پیغام قرار دیتے ہیں ہم ان لوگوں کے برخلاف اس شعر کو غالب کے ہی ایک اور شعر کے ساتھ جوڑنا زیادہ پسند کریں گے جس میں وہ مدعا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
” دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”
نواز شریف نے بھی ممکن ہے کہ اپنے کارکنان اور ووٹرز کو تسلی دینے اور خوش کرنے کے لیے اِس شعر کا انتخاب کیا ہو ورنہ اس ملک میں کس کو معلوم نہیں ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں اور خصوصاً پنجاب کے قائدین اور پارٹیوں میں اگر جان اور جوہر ہوتی تو مقتدرہ اس قدر خود سر اور بے لگام ہرگز نہ ہوتی کہ وہ جو کچھ چاہے بِلا خوف و خطرکر گزرے اور بعد میں اْن سے کوئی باز پرس بھی نہ ہو۔ اِس وقت بھی زور و شور کے ساتھ ایک اور باغی عمران خان کو راہ راست پر لانے یا زندہ درگور کرنے کے سلسلہ ہائے اعمال پر کام جاری ہے اس صورتحال میں بھی چند بلوچ قائدین استواری کی شرط پر اظہارِ وفاداری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ہم اکثریت کی مدد سے اقتدار میں آ کر سب کچھ بدل دیں گے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا
مذکورہ قائدین عجب اقسام کے خواب دیکھنے کے عادی ہیں جبکہ سیاست کے سفر میں ہمکاری اور رفاقت کے سبب نواز شریف بلوچ قائدین کو نہ صرف بخوبی جانتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ملک کے اقتدار اعلیٰ اور میدانِ سیاست میں مطلوبہ وقت گزارنے اور بہت سارے تجربات رکھنے کی وجہ سے وہ یہ بھی جانتے ہیں

کہ اب کے بار جبکہ میدان کھلا ہے اور اقتدار تک رسائی کی باگ ہاتھ اور پائوں رکاب میں ہے تو بلوچ قیادت پر اکتفا کرنے کی نسبت کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ماضی کے ناکام تجربات نام نہاد قوم پرستوں کی بلیک میلنگ کو دْہرانے کے برعکس اپنے لوگوں اور پارٹی کو بلوچستان میں لانے کا بندوبست کیا جائے جس سے گمان ہے کہ موجودہ

بیگانگی کی صورتحال میں اْسکی پارٹی کی جڑیں بلوچستان میں زیادہ پیوست ہوسکیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس وقت چونکہ قدرت اْن پر مہربان ہے اورکامیابی کی اْمید یقینی ہے تو بلوچستان کے کافی الیکٹیبلز ممکنہ طور پر نواز لیگ میں شامل ہو جائیں گے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر بلوچستان کی نمائندگی ان کے پاس ہو گی

تو وہ صوبائی فنڈز کے ساتھ جو بھی چاہیں کر سکتے ہیں فنڈز کے علاوہ بھی وہ ریکوڈک اور گوادر پورٹ سمیت بلوچستان کی دیگر تمام معدنیات کے ساتھ جو کچھ چاہیِں بِلا کسی روک ٹوک ، تنقید ، احتجاج اور ناراضگیوں کے کروا سکتے ہیں لہٰذا انہی خطوط پر سوچتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی بلوچ پارٹی کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیئے

کہ ان کو اکثریت کے ساتھ اقتدار مل سکے گا۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اس طرزِ سوچ کے مطابق مسلم لیگی اس قدر فراخ دلی کا مظاہرہ ہر گز نہیں کریں گے کہ وہ اقتدار جو خود اْنہی کو مل سکتا ہے وہ اْس اقتدار کو اٹھا کر کسی دوسرے کے حوالے کردیں اس پر کم از کم ہمیں تو قطعاً یقین نہیں ہے پھر بھی ممکن ہے کہ کوئی انہونی ہو اور 2013ء کے واقعات ایک بار پھر سے خود کو دہرا ئیں اور پاکستان چونکہ لگاتار ایک ہی دائرے میں چکّر کاٹتا رہتا ہے۔ لہٰذا اِن غلام گردشوں میں یہ بھی ممکنات میں شامل ہے۔