|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2023

ملک کو موجودہ معاشی گرداب سے نکالنے کے لیئے مقتدرہ کے پاس جو اہداف اور عزائم ہیں وہ اِس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ عرب ممالک بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آئل ریفائینری لگاکر اور ریکوڈیک میں سرمایہ کاری کرکے ملک کو معاشی بحران سے نکال باہر کر یں گے۔
عرب ممالک کی جانب سے مذکورہ دونوں منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لیئے مشروط آمادگی ظاہر کرنے پر یاد آیا کہ پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت کا طرزِ فکر بھی انتہائی دلچسپ اور دْور رس مقاصد کے حصول پر مرکوز ہے اس سلسلے میں بارہا کے تجربات، حکمرانوں کی مْتکبرانہ روش، قیام پاکستان کے ساتھ ہی کرپشن کے شواہد اور ماضی کی تاریخ کے جائزے پردہ چاک کرتے ہوئے اس حقیقت کو ہر عام و خاص کے سامنے لا کر عیاں کر دیتے ہیں کہ ملک کے حکمران جب بھی مشکل ترین حالات ، لاینحل مسائل اور پیچیدگیوں سے دوچار ہوتے ہیں تو فوراً بلوچ فرزندوں کی سر زمین بلوچستان کو یاد کرتے ہیں لہٰذا یہ اِن لوگوں کی انفرادیت بلکہ مجبوری ہے کہ بحرانوں سے نکلنے کے لیے ہمیشہ بلوچستان کے وسائل ، ساحل اور جغرافیائی محل وقوع سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس قسم کے سلسلوں کو آغاز سے انجام تک چلتے رہنا چاہیے یا نہیں؟ نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ اس ملک میں کچھ بھی کر لو، چاہو تو پانی میں آگ لگا دو اِس کی اجازت، آزادی اور تحفظ ہے۔ بس راست گوئی سے دامن بچا کر چلیئے۔ مگر کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب ہندوستان کے حکمرانوں نے اِن کے حصے کے ’’زر‘‘ کو روکے رکھا تو اْس وقت بھی بلوچ قوم کے سربراہ نے آگے بڑھ کر اِن لوگوں کے ساتھ تعاون کیا تھا اِس احسان کا بدلہ ان لوگوں نے کس شکل میں دیا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قانونِ قدرت اور انسانی تہذیب کے تقاضے بلکہ حالیہ دور میں توباقاعدہ آئینی اور قانونی شقّیں موجود ہیں کہ ایک ملک کو جس قوم کی سرزمین سے زیادہ وسائل اور آمدن ملے اْس سر زمین کے باشندے اْتنی ہی اہمیت اور اوّلیت کے مستحق ٹھہرتے ہیں مگر ہم چونکہ انسانی سماج اور دھرتی سے دْور بادلوں کے پار فرشتوں کی دنیا میں آباد ہیں اس لیے ہمارے اطوار معروضی دنیا اور زمینی قوانین سے الگ اور نرالے ہیں اِس لیے اگر یہ لوگ بلوچ سرزمین بلوچستان کی طرح بلوچ قوم کو ترجیح اور اولیت نہیں دیتے یا بلوچ فرزندوں کو انسان کی نظروں سے نہیں دیکھتے یا بلوچ قوم کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک روا نہیں رکھتے تو مقتدرہ کی نظر میں فرعونیت کے اِن معمول کے رویّوں پر بلوچ قوم کے اندر منفی ردِعمل ، دل آزاریاں اور شکایات کا پیدا ہونا ہر گز مناسب نہیں ہے۔ یہاں پر اگر ہم ملک کے حکمرانوں کے مذکورہ طرزِ عمل کو ناپسندیدہ یا قابلِ نفرت اقدام قرار دے کر اختلاف رکھیں یا اِسکی مذمت اور مخالفت شروع کریں ،اگر ہمارے موقف کے ساتھ غیر بلوچ اور بلوچستان سے باہر کے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر اتفاق نہ کریں اور جواباً شدید ترین برہمی اور خفگی کا اظہارکریں تو یہ ایک فطری اور قابلِ فہم ردِ عمل ہے لیکن اس سے اہم ترین اور توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں عام بلوچ لکھاریوں ، دانشوروں ، سماجی اور سیاسی کارکنان کے علاوہ (جو ان لوگوں کی نظر میں ہر وقت تنقید اور شکایات کا شوق رکھتے ہیں) اراکینِ سینٹ سمیت صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران جو ملک کے ساتھ وفاداری کا سوگند اْٹھانے کے سبب سرکار کی پالیسی اور فیصلہ ساز اداروں میں موجود ہیں پھر یہ بھی کہ بلوچستان کے عام نمائندوں سے زیادہ بلوچ قائدین جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہیں وہ بھی وقت اور حالات کے مطابق کبھی کبھار اظہارِ راست سے کام لیتے ہوئے غبار قلب نکال کر دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کے حکمرانوں کو بلوچستان ضرور عزیز ہے یکن ان حکمرانوں کو بلوچ قوم کے ساتھ لگاؤ تو دْور انسانی بنیادوں پر ہمدردی تک نہیں ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کے حکمرانوں کو بلوچستان کی تو ضرورت ہے لیکن بلوچ فرزندوں کی ہر گز ضرورت نہیں ہے اب اگر کوئی اس قسم کے اظہاریوں کے اندر پوشیدہ مطالب کو دیکھے تو اس قسم کے اظہاریوں کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ حکمران بلوچ قوم کو مٹانا چاہتے ہیں تاکہ وہ بلوچستان پر بلاشرکت غیرے قابض رہ سکیں ۔اِن موسمی قائدین کے مقابلے میں سیاسی ہدف اور ٹارگٹ کے طور پر تو نہیں بس یونہی حربہ جاتی شکل میں کبھی کبھار ہوش کھو کر جوش میں آتے ہوئے یا پھر مکان اور زمان کی ضروریات کے تحت پیالہِ زہر پینے کے مصداق راست گوئی پر جبراً مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر گاڑی کی ڈگّی میں بیٹھ کر شاہی دربار میں حاضری و سلامی دیتے اور معافیاں مانگتے ہیں ۔ویسے اس ملک کے سارے سیاست دان یہاں تک کہ مقتدرہ بھی مذکورہ طرزِ عمل پر کار بند ہیں۔ پاکستان میں یہ ایک کامیاب طریقہ کار ہے۔ سرکار کے پاس اس قسم کے دوغلے اور دونمبر وفاداروں سے دو قدم آگے انوار الحق کاکڑ جیسے ایک نمبر کے مستند وفادار لوگ بھی موجود ہیں جو مکان اور زمان کی پرواہ کیئے بغیر مقتدرہ کی دفاع میں کمربستہ رہتے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ جیسے لوگوں کے متعلق کوئی کیا کہے بس یہی کہ سرکار کی منصب داری ، شیش محلوں اور سیون اسٹار ہوٹلوں میں قیام سے پہلے ہماری طرح بدحال حالات میں شہر و بازار کی بدبو دار گلیوں میں گھومتے پھرتے ، بالا خانوں اور چوباروں میں رہتے تھے جو وقت اور حالات کی قہر انگیزیوں کے ردِ عمل اور جواب میں حاکم طبقات اور اقوام سے انتقام لینا چونکہ ان لوگوں کی دست رس سے باہر ہے اس لیے ظلمات کی میناروں کے ہمنوا بن کر محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کی جانب سے کسی بھی قسم کے پْر امن ، جمہوری اور برحق جدوجْہد کی حمایت تو دْور،اِسکے مثبت پہلو تک نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے برخلاف اس قسم کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی علم ، عقل ، حکمت ، توانائی اور دلائل کو منفی اْفکار کی پرورش اور دفاع پر بروئے کار لا کر پیچیدگیاں پیدا کرتے جائیں اور اس مقصد کے حصول کی خاطر فلاسفر بن کر دنیا و جہان کے جھوٹے اور تصوراتی دلائل ( جو حقائق کے منافی ہوں) کو یکجا کر کے مشتہر کریں ۔مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو اِس قسم کے لوگ نہ صرف قصور وار نہیں ہیں بلکہ قابلِ فہم بھی ہیں جو سماج سے ماضی کے روش کا حساب برابر کرنے کے ساتھ اپنے روزگار کا بندوبست کرنے اور خود کو اْمراء کے صفوں میں شامل کرنے کے لئے شاہ سے بڑھ کر وفاداری دکھانے کی خاطر سب کچھ کر گزرنے، یہاں تک کہ مر مٹنے پر آمادہ رہتے ہیں اس قسم کے لوگوں پر بس اِس حد تک افسوس کیا جا سکتا ہے کہ جن طبقات اور اقوام کے سبب ظلم کی بدترین چکّی میں پستے رہے ہیں آج اْنہی عناصر کے نمائندے اور ترجمان بن چکے ہیں لیکن انسان کو درد تو اْس وقت ہوتا ہے کہ وہ عناصر جو قوم پرستانہ سیاسی اْفکار کی پیداوار ہونے کے ناطے طویل دور تک مظلوم اقوام کے حقوق کے علمبردار سمیت اصولی اور جمہوری سیاست پر یقین رکھتے رہے ہیں لیکن حالات کی ضروریات کے تحت وہ ذاتی اور خاندانی یا قبائلی مصلحتوں کے ہاتھوں اس قدر لاچار اور مجبور ہیں کہ وہ بھی برحق طرزِ سوچ کے ساتھ عملاً اتفاق نہیں رکھتے۔ اس کے اسباب و علل پوشیدہ نہیں بلکہ سب پر عیاں ہیں کہ ان لوگوں کے لیے ہر چیز سے مقدم ذاتی اغراض اور انتخابی کامیابیاں ہیں اور ان مقاصد کے حصول کی خاطر لازم ہے کہ وہ ملک کے سیاسی خصوصاًغیرسیاسی عناصر کے ہاں میں ہاں ملا کر چلیں بصورت دیگر یہ لوگ انتخابات میں شکست سے دوچار ہو جاتے ہیں اس قسم کے معاملات اْس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک کہ عوام با اختیار ہو کر اپنے نمائندوں کو خود منتخب نہ کر یں؟