|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2023

بلوچستان حکومت کی ضلع کیچ کے مرکزی شہر میں سی ٹی ڈی کے زیرحراست قتل ہونے والے بالاچ مولابخش کے واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم ٹریبونل اس وقت متنازعہ ہوگیا

جب بلوچستان حکومت خود اس قتل میں ایک فریق بن گئی۔ صوبائی حکومت نے اس قتل کاایف آئی آر درج کرنے کے خلاف سیشن کورٹ تربت کے احکامات کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا حالانکہ آخری اطلاع آنے تک تربت پولیس سیشن کورٹ کے احکامات بظاہر رد کرچکی ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود تھانہ پولیس سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کررہی ہے

جس کے خلاف تربت میں ہزاروں لوگوں کا دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ عدالتی حکم پر بالاچ کے قتل کی ایف آئی آر سی ٹی ڈی کے خلاف درج کی جائے۔
اگر دیکھا جائے تو حکومت کو اپنی بنائی گئی ٹریبونل کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے تھا تاکہ جعلی پولیس مقابلے کی حقیقت سامنے آجاتی مگر حکومت نے عجلت میں احمقانہ پن کا مظاہرہ کیا۔ اگر اس جعلی پولیس مقابلے کا دفاع کرنا تھا تو ٹریبونل قائم کرنے کا کیا تْک بنتا تھا؟

واضح رہے 21 نومبر کو بالاچ مولابخش کو سی ٹی ڈی نے تربت کے مقامی عدالت میں پیش کرکے ان کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ عدالت سے لیا تھا۔ دس روز ریمانڈ کے بعد انہیں عدالت میں پیش کرنے کے بجائے 23 نومبر کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں ماردیا گیا۔

ان کے ساتھ دیگر تین افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا گیا جن کی شناخت سیف اللہ، شکور اور دیگر ہوئی تھی۔

وہ بھی پہلے سے زیرحراست تھے۔
ابھی بالاچ کے جعلی مقابلے کے خلاف احتجاج جاری تھا کہ 27 نومبر کو مغربی و مشرقی بلوچستان کو جدا کرنے والی گولڈ سمڈ لائن پر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ڈرائیورشعیب ولد عبدالحمید جاں بحق ہوگئے۔ قتل ہونے والے ڈرائیور کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے مند سے تھا۔

وہ بارڈر پر مال بردار گاڑی چلاتے تھے اور اپنی فیملی کا گزربسر کرتے تھے۔

اس ناحق قتل کے خلاف شعیب بلوچ کے اہل خانہ لاش کو بجائے دفنانے کے، بالاچ بلوچ کے قتل کے خلاف جاری دھرنے میں لانے کی کوشش کررہے تھے کہ انہیں راستے میں روک دیا گیا

اور زبردستی انہیں لاش دفنانے پر مجبور کردیا گیا۔ اس قتل کی ایف آئی آر بھی مند لیویز کاٹنے سے انکاری ہے۔ ڈرائیور شعیب کے اہل خانہ ان کی تدفین کے بعد تربت میں بالاچ بلوچ کے قتل کے خلاف جاری دھرنے میں پہنچ گئے ہیں اور مطالبہ کررہے کہ بارڈر سیکیورٹی فورسز کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔

بہرحال دونوں لواحقین کا دھرنا تربت میں جاری ہے

جس کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ، حق دو تحریک کیچ، تربت سول سوسائٹی اور آل پارٹیز الائنس سمیت دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ اس دھرنے میں حق دو تحریک کے رہنما واجہ صبغت اللہ بلوچ کا کردار ایک مرد آہن کی طرح سامنے آرہا ہے۔ ان کا پدرانہ سایا دھرنے میں شریک بلوچ بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی سروں پر موجود ہے۔ واجہ صبغت اللہ ایک عظیم باپ کا عظیم بیٹا ثابت ہوا۔ وہ اسلامی اسکالر، دانشور و مفکر مولوی عبدالحق بلوچ کے صاحبزادے ہیں۔

مولوی صاحب1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں بیک وقت مکران سے رکن قومی اسمبلی اور کیچ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ کیچ سے دوسری نشست سے ڈاکٹر حیدر بلوچ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر حیدر بلوچ، سردار میر کنہر سنگھور کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔

جبکہ اسی نشست سے 1970 کے عام انتخابات میں سردار میر کنہر سنگھور کے بڑے بیٹے صاحبزادہ سردار میر دوست محمد سنگھور بھی رکن بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں۔بعدازاں مولوی عبدالحق بلوچ نے ایم پی اے کی نشست چھوڑ کرایم این اے کی نشست اپنے پاس رکھ لی۔ ضمنی انتخابات میں مند سے تعلق رکھنے والی دو بڑی شخصیات میر محمد علی رند اور میر جلال خان رند مد مقابل ہوئے۔ تاہم میر محمد علی رند چند ووٹوں سے منتخب ہوگئے۔

زبیدہ جلال، میر جلال خان رند کی بڑی صاحبزادی ہیں۔
مولوی عبدالحق بلوچ اپنے آخری ایام تک جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر تھے

لیکن بلوچ قوم میں ان کی شناخت جماعت اسلامی سے نہیں تھی بلکہ ان کی اپنی ایک جداگانہ اور منفرد شخصیت تھی

جو اپنی جماعت سے بالکل الگ تھی۔ کیونکہ جماعت اسلامی وفاق کی مضبوطی کی بات کرنی والی جماعت ہے لیکن مولوی عبدالحق صاحب اس کے برعکس شخصیت کے مالک تھے۔ وہ آخری ایام تک بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر بلوچ قوم کی حق ملکیت کی پرچار کرتے تھے۔

بظاہر ایک وفاق پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے مولوی صاحب بلوچ قوم پرستانہ سیاست کو ترجیح دیتے تھے۔

وہ گوادر پورٹ، سیندک، ریکوڈک اور سوئی سے نکلنے والی گیس پر بلوچ قوم کی حق ملکیت کا دعویٰ کرتے تھے۔ ان کی شخصیت بلوچیت کی عکاسی کرتی تھی۔ان سے میری بے شمار ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات قومی ہاؤس بلوچی بازار، آبسر تربت میں ہوئی تھی۔ وہ واجہ پیر محمد قومی کے صاحبزادے مولابخش قومی کی شادی کی تقریب میں آئے تھے۔ مولوی صاحب کے قومی برادری سے فیملی ٹرمز تھے۔ واجہ پیر محمد قومی کے آبا ئو اجداد کا تعلق اورماڑہ سے تھا۔

وہ جورکزئی سنگھور ہیں۔ جبکہ ان کی اہلیہ اماں نوربی بی کے آباء و اجداد کا تعلق بلیدہ سے تھا۔ میرا بچپن بھی قومی ہاؤس میں گزرا۔ میرا پہلا گھر کراچی میں ہے۔

جبکہ دوسرا گھر قومی ہاؤس بلوچی بازار ہے۔ اماں نوربی بی نے میری پرورش کی۔ میں نے مکران ڈویژن کے اضلاع کیچ، گوادر اور پنجگور میں ایک عرصے تک صحافت کی۔

میں نے شروع شروع میں مکران کے لئے رپورٹنگ ہفت روزہ تکبیر اور ہفتہ روزہ غازی کے پلیٹ فارم سے کی تھی۔

جبکہ مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کراچی سے منسلک رہا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب تربت میں پریس کلب کی عمارت نہیں تھی۔ موجودہ عمارت کے لئے مجھے تربت کے تین معروف صحافیوں کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔

جن میں پھلان خان، لال بخش قومی اور ارشاد اختر شامل ہیں۔ پھلان خان، لال بخش قومی، ارشاد اختر اور میں نے اس وقت کے آرمی مانیٹرنگ ٹیم مکران کے انچارج بریگیڈیئر سعید احمد اور تربت کے انچارج کرنل طاہر اخلاص سے ملاقات کی۔

پریس کلب کی عمارت کی تعمیر میں پانچ لاکھ روپے درکار تھے۔ بریگیڈیئر سعید احمد پریس کلب کے منصوبے کے حق میں تھے۔ تاہم کرنل طاہر اخلاص ہماری رپورٹنگ سے نالاں تھے۔ یہ وہ دور تھا جب گوادر میں جاری لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کے ایک ہجوم نے گوادر پاور ہاؤس کو آگ لگادیا تھا جس کی خبر ڈیلی ڈان کے فرنٹ پیج پر شائع ہوئی۔ اس خبر نے اسلام آباد کی سرکار کو ہلاکر رکھ دیا ۔

بہرحال ہمارے بے حد اصرار پر بریگیڈیئرسعید احمد نے پریس کلب کی تعمیر کی منظوری دے دی۔یوں تربت پریس کلب کی عمارت تعمیر ہوگئی۔ بظاہر یہ ایک عمارت ہے لیکن یہ ایک مظلوم طبقہ کے لئے آواز اٹھانے کی پلیٹ فارم بھی بن چکی ہے۔ اس پلیٹ فارم سے کوئی بھی متاثرہ خاندان اپنی فریاد سرکاری ایوانوں تک پہنچاسکتا ہے۔ اس عمارت کی وجہ سے آج پورا ضلع کیچ پوری دنیا سے منسلک ہوگیا ہے۔ یہاں کی فریاد پوری دنیا میں سنی جانے لگی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مکران ڈویژن کے لوگ علاج کے علاوہ اپنی آواز بلند کرنے کے لئے کراچی پریس کلب کا سفر طے کرتے تھے۔

اور کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال، پریس کانفرنس اور احتجاجی مظاہرے کرتے تھے۔ تربت پریس کلب کی عمارت کے بعد گوادر اور پسنی میں بھی پریس کلبوں کی عمارتیں بن گئیں۔ جو ایک مثبت سوچ تھی۔ اور اس سوچ کا سفر آج بھی پورے مکران ڈویژن میں جاری ہے۔

ویسے تو مکران بلوچستان کے دیگر ڈویژنوں سے تاریخی، سماجی، نسلی اور مسلکی بنیادوں پر ایک الگ تھلگ شناخت رکھتا ہے۔ جو دیگر علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔ جس کا اظہار حال ہی میں جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے بالاچ مولابخش کی نماز جنازہ میں کیا گیا۔

جس میں مختلف نسل اور مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مرد اور خواتین نے شرکت کی۔ اور تفریق سے بالاتر اور تعصب سے پاک ہوکر بلوچ قوم کی اجتماعیت کو مضبوط کرنے کا مظاہرہ کیا۔
مکران کا یہ منفرد حسن کا سفر جاری ہے۔ یہ سفر کل مولوی عبدالحق بلوچ کی شکل میںجاری تھا۔ اور آج واجہ صبغت اللہ بلوچ کی شکل میں جاری ہے۔ یہ سفر بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی حق ملکیت کا سفر ہے۔ حکمرانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ پاگل پن کا وقت چلاگیا ہے۔ حالات بد سے تر ہوتے جارہے ہیں۔ سرکار کو ساحل وسائل کی حق ملکیت دینا پڑیگا۔ بلوچ کو ان کے جائز حقوق دینے سے ریاست کمزور نہیں ہوگی بلکہ مستحکم ہوگی۔ و گرنہ ہر ظلم کو ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے ۔