|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2023

76 سال گزر جانے کے بعد کچھ لوگ اگر اب بھی پْراْمید ہیں کہ کسی نہ کسی طور پر سیاسی پارٹیوں کی جہدِ مسلسل سے نہ سہی تو قْدرت کی نادیدہ برکات کے سبب پاکستان میں سماجی اصلاح اور سْدھار کی گنجائش موجود ہے تو اِس قسم کے لوگوں کے متعلق بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ

اِن لوگوں کی رجائیت پسندی قابلِ ستائش ہے جو بدترین حالات میں” جہاں ہر طرف شورش برپا ہو ، دہشت گردی سے شہر و بازار یہاں تک کہ مساجد اور مدارس بھی غیرمحفوظ ہوں ، ہر سمت موت رقصاں ہو ، ننگ، بھوک، پیاس ہو ، قانون بدمعاشوں کی باندی بن جائے ، آئین کو موم کے ناک کی طرح مقاصد کے تحت مَروڑا جائے ، ہر روز لاشوں کے تحفے ملیں ، لکھے پڑھے لوگوں اور طلباء کی ماورائے قانون گمشدگیاں ہوں ، سرمایہ اور کاروبار غیر محفوظ ہوں ” مایوس نہیں ہوتے یا پھر دوسری اور ممکنہ وجہ یہی ہو سکتا ہے کہ

مقتدرہ جس روش پر عمل پیرا ہے وہ لوگ سہولت کار اور مْعاون کے طور پر اْس نظام سے دراصل فوائد بٹور رہے ہوتے ہیں ۔ مفروضوں ” جو گھوم پھر کر اِس معروضی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ آئین ، قانون ، انسانی حقوق ، اختیارات ، جمہوریت ، ووٹ کی تقدس، مذہبی اور انسانی آزادیاں اِس ملک میں سب خواب ، خیال ،

سراب اور نظر کے دھوکوں سے آگے عملاًکچھ بھی نہیں ہیں” کو ایک طرف رکھ کر اگر بلوچ قوم اور بلوچستان سمیت کے پی کے اور سندھی عوام کے ساتھ ریاست کی متعصبانہ اور پْر تشدد طرز عمل کو دیکھا جائے تو ناقابلِ بیان حد تک درد ناک ہے اگرچہ ہماری خواہش ہے کہ اِس طرزِ عمل کو تبدیل کر دینا چاہیئے مگر پھر اِس نیک خواہش کو حقائق کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہے اور خواہشات کی تکمیل کے لئے حرکت اور حرارت درکار ہوتی ہے جبکہ اس قسم کی کوئی جْنبش جو مناسب تبدیلی کے لئے بیتاب ہو اور تگ و دو میں مصروف عمل رہے دْور دْور تک دکھائی نہیں دیتا پھر اس صداقت سے تو سب ہی واقف ہیں کہ حرکت کے بغیر تو قدرت بھی ایک قوم یا کسی بھی مادی ہستی کے لئے عرش سے من و سلویٰ نازل نہیں کرتا۔

اس وقت بلکہ ابتداء سے لے کر آج تک ملک کے سارے سیاست دان اور پارٹیاں حصول اقتدار کے لیے جدوجہد اور محنت کئے بغیر مقتدرہ کی طرف دیکھتی رہی ہیں کہ وہ اپنی طرف سے دریا دلی دکھا کر بٹوارہ کر کے ان کے حصوں کو متعین کرتے ہوئے حوالے کر دے اور مقتدرہ کم و بیش سب کو ان کی حیثیت اور بساط کے مطابق بہرآور کر دیتا ہے

البتہ قوی امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو اِس بار کی بندربانٹ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گایا پھر پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ مخصوص لوگوں کو استوار وفاداری کی بنیاد پر انفرادی بخشش کے طور پر کچھ نہ کچھ مل جائے۔ اِس وقت تک پی پی کو شکایات ہیں کہ پی ٹی آئی کی مالِ غنیمت میں سے جس مقدار کی توقع ہم رکھتے تھے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے ہمیں اْس حصے سے نہ صرف بے بہرہ رکھا بلکہ اْس سے دو قدم آگے بڑھ کر سندھ میں بھی پی پی کے خلاف صف بندیاں کی گئیں ہیں، اسی کارن پی پی کی جھکاؤ یک طرفہ طور پر اور بہ امر مجبوری پی ٹی آئی کی طرف ہے اس لئے بھی کہ موجودہ نگران دور میں وہ خود کو تحریک انصاف کی طرح زیر عتاب سمجھتا ہے اور اِس بنیاد پروہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے،

پھر پی پی یہ بھی سمجھتی ہے کہ موجودہ صورت حال میں اختلافات رکھ کر اور کشیدہ ماحول پیدا کر کے ہی وہ سندھ کی اقتدار تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

یہ ہیں اِس ملک کی پارٹیاں جو مقتدرہ کے اشاروں کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے اب اِس قسم کے درباری قائدین اور پارٹیوں کی موجودگی میں کوئی کس طرح امید رکھے کہ یہ لوگ سسٹم میں موجود پیچیدہ قسم کی کمزوریوں کو دْور کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو حل کر کے ملک کو ترقی و پیش رفت کی جانب گامزن کر دیں گے پھر یہ بھی کہ میدان سیاست میں سرگرم عمل پنجابی مقتدرہ کے سیاسی مْہرے ایک طرف محکوم اقوام کے استحصال میں عملاً حصہ دار ہیں تو دوسری جانب احسان جتاتے ہیں کہ اپنے دورِ حکومتوں میں ہم نے بہت کچھ کر دیا تھا، ہم جْوئے شیر لانے کے لئے نہ صرف دور رس منصوبے رکھتے تھے بلکہ عملاً سعی کر رہے تھے کہ پسماندگی کو دائمی طور پر دفن کر کے ملک کی قسمت بدل دیں گے

مگر اِس دوران اقتدار سے جبری بے دخلیوں کی خلل نے ہمیں روکے رکھا، اب برسر اقتدار آ کر ہم ملک کی مقدرکو بدل کر پاکستان کو ” شہداد” کی جنّت سے زیادہ خوبصورت اور دلکش بنا دیں گے۔ اِس سلسلے میں مسلم لیگ نواز کے لوگ 1990ء اور بعد کے ادوار کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں

تھکتے لیگی قائدین کی رائے ہے کہ ان کی حکومتوں کو کام کرنے دیا جاتا تو آج ملک ترقی کی میدان میں ہندوستان سے آگے ہوتا۔

اب یہاں پر کوئی اگر اِس دلیل کے ساتھ کْلّی طور پر اتفاق بھی نہ رکھے پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ مقتدرہ کی جانب سے اِس دور کی تجربات نے پاکستان میں جمہوری نظام کی تسلسل اور استحکام کو بلاشبہ متاثر کر دیا ہے

۔دورہِ کوئٹہ کے دوران کم و بیش یہی نواز شریف کے اعلانات تھے حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان سمیت محکوم اقوام کی پسماندگی اور ملک کو درپیش تمام تر مصائب اور مشکلات کے ذمہ دار ملک پر مسلط پنجاب کی مقتدرہ اور اِس قسم کی پارٹیاں اور سیاست دان ہیں۔ ” انتخابات کی انعقاد کے متعلق ڈاکٹر اِلہان نیاز صاحب کا یہ تبصرہ انتہائی دلچسپ اور معنی خیز ہے کہ 1951ء کے دوران پہلی بار پنجاب میں مسلم لیگ کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیئے حکمرانوں نے انتظامیہ کو استعمال کر کے دھاندلی کی تھی، بدقسمتی سے آج بھی ملک اْسی صورت حال سے دوچار ہے کہ جائز ناجائز ذرائع کو استعمال کر کے مسلم لیگ ” نواز ” کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے بصورت دیگر جب تک کہ پی ٹی آئی کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں

اْس وقت تک معیشت کی بہتری کے اِشاریوں کے ساتھ موسم اور دہشت گردی کی خطرات کو جواز بنا کر انتخابات کی معیاد کو آگے بڑھا دیا جائے۔ آج سے دو روز قبل عمران خان نے کہا تھا کہ جب بھی انتخابات ہوں مسلم لیگ نواز ہار جائے گی ڈاکٹر اِلہان نیاز کہتے ہیں کہ” ظفر اللہ صاحب نے 1953ء کا ایک سیاسی کارٹون ٹویٹ کیا تھا

جس میں سْہروردی کا بیان تھا کہ جب بھی الیکشن ہو گی مسلم لیگ ہار جائے گی” اس سلسلے میں اگر ہم سی پیک کی مثال کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں تو آسانی کے ساتھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سی پیک کے چند ناکارہ اور ناقابلِ استعمال سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ جو سی پیک کا مرکز ہونے کے سبب پنجاب کے حکمرانوں نے بہ امر مجبوری تعمیر کروائے تھے،

سی پیک کے دیگر تمام اہم ترین منصوبوں کو ان لوگوں نے پنجاب منتقل کردیاتھا جبکہ گوادر جو اِس میگا پروجیکٹ کا مرکزی شہر ہے گوادر کے لوگ پانی کے لئے ترس رہے ہیں ایک منصوبہ جو پورے خطے میں ترقی اور تبدیلیوں کا منبع اور پیش خیمہ ہو اْس کے مرکزی شہر میں صاف تو اپنی جگہ یہاں تک کہ ناکارہ پانی بھی دستیاب نہ ہو اور لوگ ہر روز پانی کے لیئے احتجاج پر مجبور ہوں اس قسم کی مثال دنیا کی تاریخ میں تلاش کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے

۔ بلوچستان کی گیس اور دیگر تمام معدنی وسائل کے ساتھ بھی یہ لوگ یہی کرتے رہے ہیں ان لوگوں کی روش یکساں نوعیت کی اور ایک ہی مقصد کے تابع ہے کہ بلوچ وسائل اور ساحل کو بیدردی کے ساتھ لوٹا جائے اور اِس لوٹ مار کے خلاف اگر کوئی آواز بلند کر دے یا احتجاج کرے تو ان کی آواز کو کچل دیا جائے، ان کو نشان عبرت بنا دیا جائے ۔ان حالات میں اگرچہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بلوچ پارٹیاں اور قائدین “جو قوم پرستی کے دعویدار ہیں” متحد ہو کر جدوجہد کی راہ اپنا لیں جو وقت اور حالات کی ضرورت ہے مگر پارلیمانی سیاست میں مصروف عمل سیاست دانوں کو اگر ہم دیکھ لیں تو یہی نظر آتا ہے کہ تمام بلوچ پارٹیاں اور قائدین ایک دوسرے کے ساتھ قربت پیدا کرنے کی بجائے اس دوڑ میں شامل ہیں کہ وہ مقتدرہ کے منظور نظر سیاست دانوں اور مقتدرہ کی گڈ بک میں رہیں تاکہ ان کے تعاون سے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اقتدار کی چمک نے ان قائدین کو قومی مقاصد یہاں تک کہ جمہوریت کے حقیقی راستے سے ہٹا دیا ہے مگر پھر بھی ہم تجویز دیں گے کہ ان قائدین کو چاہیئے کہ وہ اِس ناکارہ حکمت عملی کو ترک کر کے مقتدرہ کے مْہرے بدیسی پارٹیوں کی بہ نسبت اوّل تو ایک دوسرے کاہاتھ تھام لیں

اور دوئم یہ کہ اے این پی، این ڈی ایم اور پی ٹی ایم سمیت سندھ کے حقیقی قوم پرست جمہوری پارٹیوں کے ساتھ ایک آواز ہو کر ملک میں قومی جبر و تشدد ، قومی محکومیت ، لوٹ مار اور ناانصافیوں کے خلاف مشترکہ طور پر آواز بلند کر کے جدوجہد کریں ۔

یہ حکمت عملی اور طرز عمل مسلم لیگ نواز ، پی ٹی آئی اور پی پی کے ساتھ ہمکاری کرنے اور اْن کے پیچے پڑے رہنے سے کہیں زیادہ مناسب تر اور موثر ہے جو مظلوم اقوام کے لیئے عملاً سْود مند ثابت ہو سکتا ہے جس کے سبب ملک کے مظلوم اقوام مشترکہ مسائل پر متحد ہو کر جدوجہد کر سکتے ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کی نہ صرف تحفظ کر سکتے ہیں بلکہ ان میں موجود کمزوریوں کو دْور کر کے محکوم اقوام کو مزید اختیارات دلا سکتے ہیں