|

وقتِ اشاعت :   January 14 – 2024

بلوچ خواتین اور بچیوں کی قوت کے سامنے تمام ریاستی طاقت شکست خوردہ ہوگئی۔

اس ریاستی ہار کا اظہار اس وقت سامنے آیا جب بلوچ خواتین کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں سامنے آئیں۔

یہ عمل ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ فوٹو شاپ کے ذریعے بلوچ بچیوں کی نازیبا و غیراخلاقی ایڈٹ کردہ تصاویرجاری کردی گئیں جس کا مقصد عورت ذات کو بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ تاہم بہادرغیرت مند بلوچ قوم کی بیٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی سمی دین بلوچ نے اس اوچھے ہتھکنڈے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنا نقاب اتار دیاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور عورت میرے نقاب لگانے کے فیصلے کو کمزوری سمجھا گیا۔ اور کہا کہ وہ اتنی کمزور اور لاچار نہیں ہے بلکہ وہ ایک باہمت اور غیرت مند لڑکی ہے۔
تخت اقتدار کے شہر اسلام آباد میں جاری بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کامیاب تحریک نے حکومت کے چھکے چھڑادیئے۔ ان کی ہر سازش کو ناکام بنادیا۔ ان عورتوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومت سے کئی گنازیادہ طاقت رکھتی ہیں۔ سرکاری مشینری ان کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔

بلوچ خواتین کی اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنے تمام تر حربوں میں ناکامی کے بعد اب بلوچ خواتین کے ننگ و ناموس پرحملہ آور ہوکران کیخلاف نازیبا وغلیظ حرکتوں پر اترآئے ہیں۔
اس حرکت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ نہتی بلوچ لڑکیاں نہیں ہیں۔ یہ بے چاری اور لاوارث لڑکیاں نہیں ہیں۔
بلکہ ریاست نہتی اور بے چاری ہے۔ ریاست کی اس لاوارثی اور کمزور پن پر افسوس ہوتا ہے جو اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے۔


سب سے پہلے حکومتی اداروں نے اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور بچیوںکی لاٹھی چارج اور شیلنگ سے استقبال کیا، ان پر رات کو واٹر کینین کا استعمال کیا گیا۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں بالوں سے گھسیٹ کر پولیس موبائلوں میں ڈالا گیا

۔ انہیں پولیس تھانے میں قید کیا گیا۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ بعد میں انہیں پنجاب بدر کرنے کا پلان بنایا گیا۔

انہیں زبردستی بسوں میں ڈال کر واپس بلوچستان روانہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم بلوچ خواتین نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا اور وہ آخر دم تک ڈٹی رہیں۔ اور وہ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔

جہاں نے انہوں نے اپنا احتجاجی کیمپ لگایا۔ تاہم حکومت اپنے حربوں سے باز نہیں آئی۔ سیکیورٹی ادارے رات کے تین بجے مظاہرین کا لاؤڈ اسپیکر چوری کرکے لے گئے یعنی نوبت لاؤڈ اسپیکر کی چوری تک پہنچ گئی۔ اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرنے سے ان کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


اسپیکر کی چوری کے بعد حکومت کے سربراہ یعنی نگران وزیراعظم انوارالحق چودھری (کاکڑ) میدان میں اتر آئے۔ چودھری صاحب نے ایک تقریب کے دوران اسلام آباد پریس کلب کے باہر جاری بلوچ لاپتہ افراد کے دھرنے کے لواحقین کی وابستگی کو بلوچستان کی آزادی پسند تنظیموں سے منسلک کیا اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ خواتین پر بدترین تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ

چار ڈنڈے پڑنے پر واویلا کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے ریمارکس سے بلوچ عوام کی بلوچی روایت کی تذلیل ہوئی۔نگران وزیراعظم کے اس طرح کے جملوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگی جیسے اہم مسئلے پر حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور وزیراعظم اپنے ملکی آئین و قانون کے برعکس خیالات کے مالک ہیں۔ جس سے وفاق اور بلوچ کے عوام میں جاری خلیج میں مزید دراڑیں پیدا ہوگئیں ہیں۔


نگران وزیراعظم کے ریمارکس پر بھی بلوچ خواتین نے اپنی سیاسی بصیرت سے حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور ہمت و جرت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن حکومت اپنے ناکام ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئی۔

سرکار نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک نگران وزیر کو میدان میں اتار دیا۔ ساشے کی پیکنگ کی مانند نومولود بچے کا استعمال کیا گیا۔ بلوچستان سے مستعفی ہونے والا نگران وزیر کھیل جمال رئیسانی کو اسلام آباد روانہ کردیا گیا جہاں وہ اسلام آباد پریس کلب کے باہر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے کے مد مقابل آگئے۔ انہوں نے وہاں اپنا ایک الگ کیمپ لگادیا ہے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف بیانات دے رہے ہیں،

وہ ریاستی بیانیہ کا پرچار کررہے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت بھی ان کی اپنی ہے اور مطالبات بھی اپنی حکومت سے کررہے ہیں۔ اس عمل سے وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا حکومتی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ کیا حکومت ناکام ہوچکی ہے؟ اگر دہشت گرد طاقتور ہیں

تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ دہشت گردوں کو گرفتار کرے۔ بلوچستان کے شورش زدہ حالات کی ذمہ دار یہ بلوچ خواتین نہیں بلکہ حکومت کی “مارو اور پھینکو” والی پالیسیاں ہیں جس کی وجہ آج بلوچستان 23 سالوں سے جل رہا ہے۔ اس آگ کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ اس کی غلط پالیسیاں ہیں۔

ان پالیسیوں کی وجہ سے آج پورا بلوچستان آگ کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اگر حکومت کے پاس کوئی پالیسی ہے تو بندوق کی نوک والی، اگر بزور طاقت مسئلے کا حل ہوتا تو آج امریکہ افغانستان سے نہیں بھاگتا۔
امریکہ پاکستان سے کئی گنازیادہ طاقتور ریاست ہے بلکہ وہ دنیا کی سپر طاقت ہے۔

انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ بندوق سے مسئلے کا حل نہیں نکلتا لیکن ہماری سرکار عقل سے پیدل ہوچکی ہے۔
ریاست کی جانب سے طاقت کے ذریعے بلوچ خواتین کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد سرکاری ادارے بلوچ غیرت مند خواتین اور بچیوں کی نازیبا تصاویر بناکر میدان میں اتر چکی ہیں۔

شاید بلوچ قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کا مدمقابل ان کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ان کے جنگی اصول جنگی روایات کے منافی ہیں۔ ان کا کوئی اصول اور روایت نہیں ہے۔ آج بلوچ خواتین قوم کی لیڈر ہیں باقی سب گیدڑ ہیں!