|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2024

صدیق بلوچ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن جب تک رہے ایک مثالی اور اچھے انسان کی حیثیت سے زندگی گزاری۔

وہ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور آدمی تھے جنہوں نے علم اور شعور کو آنے والی نسل کی جانب بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر کے ایک چیلنج قبول کیا تھا کیونکہ اس زمانے کے میڈیا میں بلوچ قوم کے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، خاص طور پر انگریزی صحافت میں۔ انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی بلوچ روایتوں کو زندہ رکھا اور سچ کو ہمیشہ اپنی خبروں کی بنیاد بنایا۔اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے علاوہ دیگر بلوچ نوجوانوں کو بھی صحافت کی جانب آنے کی ترغیب دی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بلوچ صحافیوں کی بڑی تعداد اس پیشہ میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ان کی مدد یا مشورہ سے ہی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔انگریزی صحافت میں لطیف بلوچ، عزیز سنگور، سعید سربازی، نثار ہوت، افضل بلوچ اور کئی اور نوجوان یہ جانتے ہیں کہ ماما صدیق کے بغیر ان کا یہاں تک پہنچنا یقینا ممکن نہ ہوتا۔
شروع ہی سے ان کا کردار ایک استاد اور گائیڈ کا رہا ہے۔ وہ ہمارے سینئر تھے۔ تقریباً 50 سال پہلے ان سے ملاقات کا شرف ہم نے حاصل کیا تھا۔ صدیق بلوچ جنہیں ہم صدیق جنگیان کے نام سے جانتے تھے، ان سے ہمارا تعارف لالا لعل بخش رند کے گھر کے سامنے چھاپڑہ ہال (جو لینن گراڈ کے نام سے مشہور تھا) میں ہوا، جو غیر رسمی طور پر ایک اسٹڈی سینٹر تھا۔ یہاں کورس کی کتابوں سے ہٹ کر ترقی پسند ادب سے متعلق تحریروں پر تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ لالا رند خود بھی “لیکچر’’ دیتے تھے اور کبھی کبھی کراچی کے سوشلسٹ دانش ور ڈاکٹر م۔ر۔حسّان، انیس ہاشمی بھی وہاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے اور پھر سوال جواب کا سیشن ہوتا تھا۔ صدیق صاحب کی حیثیت وہاں مانیٹر کی جیسی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں انہیں پروفیسر بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی باتوں میں فلسفہ کا رنگ نمایاں ہوتا تھا۔
صدیق بلوچ کا نام بی ایس او کے بانیوں میں بھی شمار ہوتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ جب 1972 میں بلوچستان میں نیپ کی حکومت قائم ہوئی تو گورنر میر غوث بخش بزنجو نے صدیق صاحب کو اپنا پبلک ریلیشن آفیسر مقرر کیا۔ بعد میں جب صوبائی حکومت کو زبردستی برخاست کیا گیا تو قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ صدیق صاحب کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔کافی عرصے کے بعد جب اس بارے میں ان کے تاثرات پوچھے گئے

تو انہوں نے کہا چار مہینے گورنر ہاؤس میں رہے اس کی پاداش میں چار سال جیل میں گزارنا پڑے۔ پھر ہنس کر مذاق میں کہا یہ ایک اچھا سودا ثابت نہیں ہوا۔صدیق بلوچ ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ ایک اچھے طالب علم کے ساتھ ساتھ ایک مستند اور باوقار استاد بھی تھے۔ ان کی وفات سے بلوچ قوم کی تاریخ کا ایک اہم باب بند ہوا ہے۔ دنیا تو چھوڑ دی لیکن ان کی خدمات اور ان کی سوچ و فکر ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

یہ مضمون اس سے قبل بھی شائع ہوچکاہے، آج بلوچستان کے ممتاز صحافی، مصنف اور روزنامہ آزادی کوئٹہ اور بلوچستان ایکسپریس کے مدیر صدیق بلوچ کے 6ویں برسی کے حوالے سے دوبار ہ شائع کی جارہی ہے۔ ۔