|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2024

لالا صدیق بلوچ ایک عہد سازشخصیت کا نام ہے

جنہوں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی مظلوموں کیلئے آواز بلند کی، 60ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا حصہ بنے اور اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ان دنوں نیشنل عوامی پارٹی اپنے عروج پر تھی جس میں بلوچستان کے اہم سیاسی شخصیات میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیربخش مری شامل تھے۔لالا صدیق بلوچ کو بی ایس او کا پہلا منشورلکھنے کا بھی اعزازشامل ہے،بزرگ دانشور اور سیاستدان ’’لال بخش رند‘

‘ جو لالا صدیق بلوچ کے دیرینہ ساتھیوں

میں شامل تھے ہمیشہ ان سے رات کو کراچی کے علاقے لیاری لی مارکیٹ میںملاقات ہوتی تھی، رات دیر تک وہاں صحافی، سیاست دان،دانشور،ادیب چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر حالات حاضرہ اور تاریخ پر سیر حاصل گفتگو کرتے رہتے تھے اگر یہ کہاجائے کہ لال بخش رند محفل کی رونق تھے تو غلط نہ ہوگا ،ان کے علم ودانش اور تجربات سے ہمیں بھی بہت سے مفید معلومات سمیت علمی حوالے سے تربیت ملتی تھی ،

لالہ لال بخش رند سے 60ء کی دہائی میں بننے والی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بارے جب میں نے ایک مرتبہ سوال کیا تھا کہ اس طلباء تنظیم کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟ کیا یہ آرگنائزیشن ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کی طلباء تنظیم کے طور پر کام کرے گی لالالال بخش رند نے مسکراتے ہوئے کہاکہ

اس بات سے انکار تو نہیں کیاجاسکتا مگر اس طلباء تنظیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان ،افغانستان اور ایران میں ایک بڑی آبادی بلوچوں کی ہے ان کو علم کی جانب مائل کرنا ہے اور اس طلباء تنظیم کی جال کو پھیلانا تھا مگر اس پر مکمل توجہ نہیں دی گئی اور یہ پاکستان اور خاص کر بلوچستان تک ہی محدود ہوکر رہ گئی جس میں خاص طور پر طلباء کے مسائل کو بھی حل کرنا شامل تھااور ہمارا مقصدبلوچ نوجوانوں کو دور جدید کے ترقی کے عمل شامل کرنا تھا

جس کے مقاصد وہ نہیں تھے جو بعد میں نکلے ، لالا لال بخش رند کا ذکراس لئے ضروری تھا کہ

جو منشور کا اس وقت لالا صدیق بلوچ نے لکھا تھا اس کے مقاصد یہی تھے۔ لالا صدیق بلوچ ستر کی دہائی میں گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کے پریس سیکریٹری بھی بنے،نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نیپ کی لیڈر شپ کے ساتھ لالا صدیق بلوچ بھی پابند سلاسل ہوئے رہائی کے بعد لالا صدیق بلوچ ذاتی طور پر سیاست سے الگ ہوئے مگر ان کے خاندان کے افرادنے ہمیشہ میرغوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ خان مینگل کی جماعت کی حمایتی رہے ،

پاکستان نیشنل پارٹی کی جب بنیاد رکھی گئی تو اس کا مرکزی آفس بھی لیاری کے علاقے ریکسر لائن میں بنایا گیا جو لالا صدیق بلوچ کے گھر کے بالکل ہی ساتھ واقع تھی اور یہ سیاسی تعلق میر غوث بخش بزنجو کی حیات تک قائم رہا بعدازاں پھر لالا صدیق بلوچ کے خاندان نے کسی اور جماعت سے تعلق نہیں جوڑا کیونکہ ایک ایسا دور آیا جب بلوچستان کے سیاسی شخصیات کے راستے جدا ہوئے اور ایک توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوا جو تاہنواز جاری ہے

البتہ بلوچستان کی ان اہم شخصیات سے تعلق ہمیشہ قائم ودائم رہا ۔لالا صدیق بلوچ نے سیاست کو خیر بادکہہ کر پھر صحافتی زندگی سے وابستہ ہوئے کیونکہ وہ پہلے سے ہی انگریزی صحافت میں ملک کے مشہوراخبار ڈیلی ’’ڈان‘‘ سے وابستہ تھے۔ ڈان نیوز سے جب ریٹائرڈ ہوئے تو انہوں نے 1988ء میں کراچی سے ایک انگریزی اخبارسندھ ایکسپریس کی اشاعت شروع کی مگر کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انہوں نے اپنے دوست ناصر بروہی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے

سندھ ایکسپریس سے اپنا تعلق ختم کردیا۔ 90ء کی دہائی میں انہوں نے کوئٹہ سے ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کی اشاعت شروع کردی جس کے دس سال بعد انہوں نے روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے باوجود کیونکر روزنامہ آزادی کی اشاعت کو ضروری سمجھا۔اس کی اہم وجہ بلوچستان میں ناخواندگی ہے ہمارے یہاں انگریزی ریڈرنہ ہونے کے برابرہے

کیونکہ لالا صدیق بلوچ نے جس طرح اپنی سیاسی زندگی میں بلوچ اور بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اسی طرح انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعے بلوچستان کا مقدمہ لڑا۔ بلوچستان کے بنیادی سیاسی، معاشی، سماجی مسائل سے عوام کو آگاہ کر نا ضروری تھا جو اردو اخبار کی اشاعت سے ہی ممکن تھا اس لئے انہوں نے روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی اور اس طرح لالا صدیق بلوچ نے اپنے قلم کے ذریعے بلوچستان کے اہم مسائل کوروزنامہ آزادی کے ذریعے اجاگر کیا۔روزنامہ آزادی میں خصوصی رپورٹ، خبروں اور اداریہ کے ذریعے انہوں نے بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کیلئے تجاویز پر مبنی تحاریر لکھے

جس کی وجہ سے عوامی حلقوں میں روزنامہ آزادی کو زبردست پذیرائی ملی۔مگر بدقسمتی یہ رہی کہ حکمرانوں نے لالا صدیق بلوچ کی صحافتی دیانتداری کو اپنے خلاف ایک محاذ سمجھا اور اس کی سزا ان کے اخبارات کو اشتہارات کی بندش کے طور پر دی تاکہ لالا صدیق بلوچ کو مجبور کیاجاسکے کہ وہ بلوچستان کے اہم سیاسی،

معاشی اور سماجی حالات پر نہ لکھیں جس شخص نے ٹارچر سیل میں اذیت کاٹ کر ساتھیوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کیا اسے کس طرح مالی مشکلات میں مبتلا کرکے اس کے افکار اور نظریات سے دور کیاجاسکتا تھا حکمرانوں کے یہ حربے بھی ناکام ہوئے

بلکہ لالاصدیق بلوچ نے کسی طرح کا بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا اور وہ مزید لکھتے رہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے یہاں حکمران مسائل کو سمجھنے کی بجائے اسے سازش سے جوڑتے ہیں اور خاص طورپر افسر شاہی ٹولہ جو بلوچستان کے حکمرانوں کو ہمیشہ اکساتا رہتا ہے کہ یہ جناب آپ کی کرسی کے پیچھے لگ گئے ہیں۔اس لئے ان کی زبان بند کرنے کیلئے آسان طریقہ اشتہارات کی بندش ہے جب مالی طورپر ادارے کو کمزور کیاجائے گا

تو اس سے ادارہ مجبور ہوکر اپنی رائے بدل دے گا، لالا صدیق بلوچ کے ایک قریبی دوست جو بی ایس او کے دوران ان کے ساتھ سیاست میں پیش پیش رہے۔

جب انہوں نے گورنر بلوچستان کا منصب سنبھالا تو لالا صدیق بلوچ نے حسب روایات لکھتے رہے جو کہ دوست کو ناگوار گزرا اور انہوں نے لالا صدیق بلوچ کو گورنر ہاؤس مدعو کیا تاکہ وہ اپنی ناراضگی سے آگاہ کرسکیں نتیجہ یہ نکلا کہ سابق گورنر بلوچستان اور لالا صدیق بلوچ کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہوگئے کیونکہ لالا صدیق بلوچ نے بلوچستان کا مقدمہ لڑنے کا بیڑا اٹھارکھا تھا اس جدوجہد سے کیسے دستبردار ہوتے پھر گورنر صاحب کے احکامات پر روزنامہ آزادی کے اشتہارات پر بندش لگادی گئی جوکہ وقتی ثابت ہوا گورنر صاحب کی مدت ملازمت تو ختم ہوئی مگر لالا صدیق بلوچ اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے

روزنامہ آزادی کے پلیٹ فارم سے لکھتے رہے۔لالا صدیق بلوچ کے سامنے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں ظلم زیادتیاں اولین اہمیت رکھتے تھے

اب اس ظالمانہ رویہ میں کوئی بھی شریک ہوتا تووہ اپنے قلم کے ذریعے کسی بھی رشتہ کو خاطر میں نہ لاتے اور حق وسچ لکھتے۔انہوں نے روزنامہ آزادی کے ذریعے گیس رائلٹی، گوادر میگا منصوبہ، ریکوڈک، سیندک سمیت دیگر اہم منصوبوں کے متعلق لکھا جس سے وفاق بھرپور استفادہ حاصل کررہی تھی جبکہ بلوچستان میں بیٹھے حکمران اور افسران اپنا حصہ بٹوررہے تھے ۔لالہ صدیق بلوچ نے 73برسوں کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے اور مضبوط اعصاب کے ساتھ اپنی جنگ جاری رکھی جس شخص نے کینسر جیسے مرض کو شکست دی اس کیلئے مالی مشکلات اور اخبار کی بندش کا منصوبہ چہ معنی داردیہی وجہ ہے کہ

آج بھی بلوچستان کا ذکر آتا ہے تو لالا صدیق بلوچ کا ذکر ضرور کیاجاتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج بھی بڑے میڈیاہاؤسز میں جب بلوچستان کے متعلق پروگرامز کئے جاتے ہیں تو معروف صحافی لالا صدیق بلوچ کی تحریروں کا حوالہ دیاجاتاہے ۔روزنامہ آزادی جو آج بلوچستان کے عوام کیلئے رائے عامہ بن چکی ہے

اس کا کریڈٹ لالا صدیق بلوچ کے سر جاتا ہے جنہوں نے روزنامہ آزادی کو منافع بخش اخبار کی بجائے بلوچستان کے عوام کی خدمت کا ذریعہ جو بلوچستان کے عوام کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کرتا ہے۔لالا صدیق بلوچ چاہتے تو اپنے دونوں اخبارات کے ذریعے اورکاروبار بھی شروع کرسکتے تھے مگر انہوں نے صرف جائز حق مانگا

آج تک ان پر کوئی بھی کرپشن کا داغ تک نہیں ہے جنہوں نے ساری زندگی ایماندارانہ صحافت کی اور اپنے اخبارات کے اشتہارات کیلئے کوئی مارکیٹنگ ٹیم نہیں رکھی

بلکہ انفرادی طور پر حکمرانوں اورافسران کے ساتھ وہ جائز حق کیلئے لڑتے رہے اور اس بات کو بھی دلیل منطق کے ساتھ باور کرایا کہ روزنامہ آزادی میں لکھی گئی تحاریر ذاتی عناد وبغض پر مبنی بلکہ ان کے تجاویز پر عمل کرکے بلوچستان کو مسائل سے نکالا جاسکتا ہے۔آج خود حکمران اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ سی پیک سمیت دیگر میگا منصوبوں کے نام پر صرف ایک صوبہ کو ترقی دی گئی جبکہ بلوچستان کو دیوار کے ساتھ لگایاگیا

جو لالا صدیق بلوچ کی تحریروں کی ترجمانی کررہے ہیں۔ًلالا صدیق بلوچ اپنے اندر ہی ایک انسٹیٹیوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے دانشور اور صحافی تھے۔ان کا خلاء آج بھی پُر نہیں کیاجاسکتا مگر روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس آج بھی اسی طرح سے صحافتی اقدار اصولوں کے مطابق مصروف عمل ہیں جس وژن کے ساتھ لالہ صدیق بلوچ نے ان دونوں اداروں کی بنیاد رکھی تھی۔

 

یہ مضمون اس سے قبل بھی شائع ہوچکاہے، آج بلوچستان کے ممتاز صحافی، مصنف اور روزنامہ آزادی کوئٹہ اور بلوچستان ایکسپریس کے مدیر صدیق بلوچ کے 6ویں برسی کے حوالے سے دوبار ہ شائع کی جارہی ہے۔ ۔