|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2024

ضلع کیچ بلوچستان میں حالیہ انسرجنسی سے نہ صرف زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے بلکہ رواں شورش کی بنیاد ہی یہاں پڑی تھی۔

8 فروری کو عام انتخابات کے موقع پر یا اس سے پہلے الیکشن مہم کے دوران عوام کی الیکشن سے بیگانگی سے صاف ظاہر تھا کہ لوگ پارلیمانی سیاست سے یکسر بیزار ہوچکے ہیں، سیاسی جماعتوں کی تمام جتن اور کوششوںکے باوجود کیچ ضلع میں کوئی بڑا الیکشن مہم کا جلسہ ممکن نہیں ہوسکا۔

الیکشن کے دن بھی عوام کی رغبت پولنگ اسٹیشنز کے سامنے ویرانی کی صورت میں صاف دِکھ رہا تھا۔ اس کا اندازہ زامران کے 3 ہزار رجسٹرڈ ووٹوں کے حامل ایک پولنگ اسٹیشن پر صرف 52 ووٹ کاسٹ ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔
عوام کی عدم دلچسپی کے علاوہ ضلع کیچ کے چار صوبائی اور قومی اسمبلی کے دو حلقوں کے لیے 8 فروری کو ہونے والے پولنگ کا عمل بم دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں سخت متاثر رہا جس کے باعث کئی مقامات پر ٹرن آؤٹ نہ ہونے کے برابر ہوا۔ کیچ کے تین صوبائی حلقہ جات میں سے بعض میں کشیدہ حالات کی وجہ سے پولنگ کا عملہ ہی غائب رہا اور پولنگ اسٹیشن مقررہ وقت ختم ہونے تک بند رہے۔
پی بی 25 کیچ 1 میں سب تحصیل ہوشاپ، زامران اور بلیدہ کے کئی پولنگ اسٹیشنز پر دھماکوں اور عورتوں کی احتجاج کے سبب پولنگ تعطل کا شکار رہا یا بعض پولنگ اسٹیشنز بند رہے جہاں پر سنگل ووٹ بھی کاسٹ نہیں کیا گیا۔ ہیرونک، نوانو اور بادئی کے پولنگ اسٹیشنوں پر صبح سے لاپتہ افراد کی فیملی سے تعلق رکھنے والے عورتوں نے احتجاج کرکے پولنگ اسٹیشن بند کردئیے جس کے باعث انتخابی عملے کو واپس جانا پڑا۔ جب کہ زامران، بلیدہ ،کوشک اور دیگر مقامات پر دھماکہ اور فائرنگ سے ووٹنگ سخت متاثر ہوا۔
نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل جان بلیدی پی بی 25 سے امیدوار تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے پولنگ اسٹیشنز کی بندش اور ووٹنگ کے عمل میں عوام کی عدم شرکت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر انہیں 13 اور ان کے مدمقابل امیدوار کو 7 ووٹ کاسٹ کیے گئے۔

جان بلیدی نے الیکشن میں بدترین دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس میں سیکیورٹی اداروں کو براہ راست ملوث قرار دیا۔
کیچ کے حلقہ پی بی 28 کیچ 4 کے پولنگ اسٹیشنز میں شامل گومازی، تگران آباد، کلاہو، اسپی کہن، کوشکلات، ہوت آباد اور رودبن کے اسٹیشنز بم دھماکوں اور کشیدہ حالات کے سبب مکمل طور پر بند رہے۔ علاقائی ذرائع اور نیشنل پارٹی کے امیدوار میر حمل بلوچ کے مطابق ان پولنگ اسٹیشنز پر کوئی ووٹ کاسٹ نہیں کیا گیا، ان اسٹیشنز کے علاوہ پی بی 28 کے کئی پولنگ اسٹیشنز پر صبح سے متعدد دھماکے کیے گئے جہاں ووٹنگ کی شرح بری طرح متاثر رہی لیکن اس کے بعد جب اگلے دن تک نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا تو شام کو ایک امیدوار انہی بند شدہ اسٹیشنز سے سینکڑوں ووٹ لے کر آیا۔ میر حمل کے مطابق ان کے پاس پریزائیڈنگ افسران کی طرف سے لکھے گئے لیٹرز ثبوت کے طور پر موجود ہیں جہاں پولنگ بند تھا۔


اسی طرح پی بی 27 کیچ 3 کے انتخابی حلقے میں بھی کشیدہ صورت حال دیکھی گئی، سیکیورٹی خدشات کے باعث متعدد پولنگ اسٹیشنز کو ایک دوسرے میں ضم کیا گیا تاہم اس کے باوجود انتخابی عمل دھماکوں اور فائرنگ کی وجہ سے سخت متاثر رہا۔ اس حلقے میں شامل مند کے کئی پولنگ اسٹیشنز عورتوں نے احتجاج کرکے بند کردئیے۔ جب کہ مشتعل عورتوں کی جانب سے بلٹ پیپر چھین کر جلانے کے اطلاعات بھی موصول ہوئے۔ مذکورہ نشست پر پیپلزپارٹی، نیشنل پارٹی و بی این اے کے امیدواروں کے بقول مند میں صرف ایک پولنگ اسٹیشن کے سوا تمام اسٹیشن بند تھے لیکن انہی بند اسٹیشنز سے ایک امیدوار 17 ہزار کا رزلٹ لے آیا اور اسے کامیاب قرار دیا گیا۔
اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار میر عبدالرؤف رند اور بلوچستان نیشنل الائنس کے امیدوار میجر جمیل دشتی نے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار پر دھاندلی اور رزلٹ اپنے حق میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کی شفافیت پر سوالات اٹھائے اور نتیجہ قبول کرنے سے انکار کر دیا
الیکشن اور پولنگ پر نظر رکھنے والے صحافتی حلقوں کے مطابق ضلع کیچ میں عام انتخابات کے دوران پولنگ کا آغاز ہی بم دھماکوں سے کیا گیا۔ دھماکے اور فائرنگ کے درجنوں واقعات کے سبب انتخابی عمل میں شدید رکاوٹ کا سامنا رہا، اکثر علاقوں میں ووٹنگ کی شرح شدید طور پر متاثر رہی جس سے ٹرن آؤٹ کافی کم ریکارڈ کیا گیا، صبح پولنگ کا آغاز ہونے کے ساتھ ہی تربت میں آپسر، پٹان کھور، گوگدان، ڈنک،

دشتی بازار اور شاہی تمپ میں مردوں اور خواتین کی پولنگ اسٹیشنز کے قریب ایک درجن سے زائد دھماکے کیے گئے جب کہ فائرنگ بھی کی گئی، تمپ میں ناصر آباد، بالیچہ، پھل آباد اور گومازی کے پولنگ اسٹیشنوں پر بھی کئی دھماکے کیے گئے۔
گورنمنٹ ہائی سکول گومازی کے پولنگ اسٹیشن پر کم از کم پانچ اور گوگدان میں دو مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر 7 دھماکے کیے گئے جس کے نتیجے میں ووٹنگ کا عمل سخت متاثر ہوا۔ پٹان کھور میں پولنگ اسٹیشن پر دو راکٹ داغے گئے جب کہ شاہی تمپ اور کوشک کے گرلز اسٹیشن پر فائرنگ کے ساتھ شاہی تمپ اور آپسر میں مردوں کے پولنگ اسٹیشن پر دو دھماکے کیے گئے۔

ناصر آباد میں پولنگ اسٹیشن کو دستی بم سے نشانہ بنایا گیا جب کہ پھل آباد میں بھی پولنگ اسٹیشن پر دھماکہ کیا گیا۔
تربت میں سری کہن، سنگانی سر، دشتی بازار اور شاہی تمپ کے خواتین پولنگ اسٹیشنز پر ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی خاتون سنیٹر اور اس کے بیٹے پر انتخابی عمل میں مداخلت کرنے کے الزامات سامنے آئے۔ پولنگ عملے کے مطابق سنیٹر اور اس کے بیٹے نے عملے کو یرغمال بنایا اور انتخابی فہرستوں کے ساتھ ساتھ متعدد کاسٹ شدہ ووٹ عورتوں سے چھین کر پھاڑ ڈالے، عملے میں شامل ایک اہلکار نے خاتون سنیٹر کی طرف سے مبینہ پھاڑے گئے انتخابی فہرست اور بلٹ پیپر کی کاپیاں بھی دکھائیں۔ آپسر میں خواتین پولنگ اسٹیشن کے بیلٹ بکس زبردستی لے جانے کی کوشش کی گئی

جسے عملے اور ووٹرز نے ناکام بنایا۔ اسی طرح سنگانی سر میں خواتین کے ایک پولنگ اسٹیشن پر بھی ایسا کچھ کیا گیا مگر عملے نے بروقت ردعمل سے اس عمل کو ناکام بنادیا۔
نیشنل پارٹی کے مطابق سری کھن میں عورتوں کے پولنگ اسٹیشن پر ایک سیاسی جماعت کے کارکنان نے پولنگ عملے پر تشدد کیا جس سے اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر بے ہوش ہوگئی جب کہ پریزائیڈنگ آفیسر کو شدید چوٹیں آئیں، بعد میں پریزائیڈنگ آفیسر اور ان کے عملے نے مذکورہ سیاسی جماعت کے متشدد کارکنوں کے خلاف پولیس تھانہ میں ایف آئی آر کی درخواست دی مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، مذکورہ پریزائیڈنگ آفیسر نے اپنے اور اپنے پولنگ عملے کے ساتھ تشدد پر مبنی عمل کی تصدیق کی اور بتایا کہ تقریباً بیس سے زیادہ مردوں نے جن کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا ،

اچانک پولنگ اسٹیشن پر ہلہ بول کر اسٹاف کو یرغمال بنایا، تمام بیلٹ پیپر اور فہرستیں پھاڑ دیں اس وجہ سے تمام ووٹ ضائع ہوگئے، بعد میں پریزائیڈنگ آفیسر نے اپنے عملے کے ساتھ پولیس تھانہ جاکر ایف آئی آر درج کرائی مگر ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ مذکورہ جماعت جس کے کارکنان پر پولنگ عملے پر تشدد کا الزام ہے اس کے انتخابی امیدوار نے ہفتے کو کارکنوں کے جلسہ میں مذکورہ خاتون پریزائیڈنگ آفیسر پر مخالف سیاسی جماعت کی حمایت کا الزام لگاکر ان کے گھر کے گھیراؤ کی دھمکی دی اور اعلان کیا کہ وہ ایف آئی آر میں نامزد پارٹی کارکنان کے ساتھ ہیں، اس بارے میں کیچ بار ایسوسی ایشن کے ایک سنیئر وکیل نے بتایا کہ مذکورہ امیدوار کا عمل خاتون پریزائیڈنگ آفیسر کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی کوشش ہے جو قانوناً ایک جرم ہے۔ وکیل کے مطابق پولنگ کے دن پریزائیڈنگ آفیسر مجسٹریٹ ہوتا ہے اس کے پاس کسی کے خلاف گرفتاری کی قانونی حیثیت موجود ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ شاہی تمپ میں خواتین پولنگ اسٹیشن کے ووٹرز اور انتخابی عملے کے مطابق پولنگ اسٹیشن پر ایک سنیٹر کی بے جا مداخلت اور اسٹاف کو یرغمال بنانے کے باعث پولنگ اسٹیشن دو گھنٹوں کے لیے مجبوراً بند کرنا پڑا جس کے بعد جب دوبارہ ووٹنگ کا آغاز کیا گیا تو درجنوں عورتوں کو الیکشن کا وقت ختم ہونے کے باوجود باؤنڈری کے اندر ہونے کے سبب ووٹنگ کا حق دیا گیا اس وجہ سے مذکورہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹنگ رات ساڑھے 7 بجے تک جاری رکھنا پڑا۔ اسی پولنگ اسٹیشن کے عملے نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی جانب سے انتخابی عملے کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ بدکلامی کے الزامات بھی عائد کیے۔ اس سب کے بعد جب پولنگ کا عمل مکمل ہوا تو 30 گھنٹوں کی تاخیر سے نتائج کا اعلان کیا گیا اور حیران کن طور پر ان پولنگ اسٹیشنز پر سینکڑوں کاسٹنگ ووٹوں کا رزلٹ لایا گیا جو سرے سے بند تھے یا ان میں سے بیشتر پر ووٹنگ کی شرح کشیدہ صورتحال کے سبب نہ ہونے کے برابر تھی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کیچ جو قوم پرست سیاست کا کبھی مرکز ہوا کرتا تھا یہاں پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی بھاری مارجن سے کامیابی ایک حیران کن عمل ہے جس کی 8 فروری سے پہلے قطعاً کسی کو توقع نہیں تھی۔
ضلع کیچ جیسے چھوٹے شہر میں انتخابی نتائج کے اعلان پر تاخیر کو سیاسی جماعتیں من پسند امیدواروں کی کامیابی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہیں۔ نیشنل پارٹی کے امیدوار جان محمد بلیدی، میر حمل بلوچ اور لالا رشید دشتی کے مطابق وہ اپنے حلقوں میں بھاری مارجن کے ساتھ کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے پاس مختلف پولنگ اسٹیشنز کا فارم 45 بھی موجود ہے مگر اس کے باوجود ان کے نتائج کا اعلان نہیں کیا جارہا جس کا واضح مطلب ان کے مخالف امیدواروں کو کامیاب بنانے کی کوشش ہے۔ ان کے مطابق اگر انتخابی نتائج میں تبدیلی کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے۔
نیشنل پارٹی کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی اور ان کے امیدواروں کے نتائج تبدیل کرنے کے خلاف 10 فروری کو تربت گوادر اور پسنی میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور آر اوز آفسز کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔ ایک ایسا ہی احتجاج تربت میں ڈاکٹر مالک کی سربراہی میں کیا گیا

، نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کی آفس کے سامنے کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا اور وہاں سے ریلی کی صورت میں شہید فدا چوک پر آکر احتجاج کیا۔ نیشنل پارٹی نے بلوچستان بھر میں انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے مرحلہ وار تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔

بدھ کی شام ایک پریس کانفرنس میں ڈاکٹر مالک نے کہا تھا کہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے امیدواروں کو ہرانے اور بدترین دھاندلی کے خلاف احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں، سیاسی و عسکری قیادت نے ہمیں ہر موقع پر بار بار غیر جانبدارانہ الیکشن کی یقین دہانی کرائی تھی اس بھروسے پر نیشنل پارٹی نے الیکشن کے عمل میںاپنی شرکت یقینی بنائی، جب 2024 کے الیکشن کا پروسس شروع ہوا تو ہمارے مینو فیسٹو میں اہم مطالبہ بلوچستان کے عوام کے لئے ووٹ کے حق کو تسلیم کرنا تھا، لیکن الیکشن سے یہ ثابت ہوا کہ یہاں کامیاب کوئی اور ہوتا ہے نوٹیفکیشن کسی اور کا نکالاجاتا ہے

۔ 8 فروری کو جب الیکشن شروع ہوا تو ہمیں محسوس ہوا کہ کھلی دھاندلی کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں ۔ الیکشن کے دوران سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا، نیشنل پارٹی نے اپنے کارکنوں، عوام اور ووٹرز کے رسک پر الیکشن لڑا، الیکشن مہم کے دوران سنیٹر اکرم دشتی اور امیدوار لالا رشید دشتی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ،دوستوں کی رہائش گاہوں پر بم دھماکہ اور فائرنگ کی گئی۔ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ الیکشن کے روز حالات کی کشیدگی کے باعث متعدد مقامات پر الیکشن نہیں ہوئے بلکہ دانستہ نہیں کرائے گئے، ہیرونک میں یوسی چیرمین نے لوگوں کو اکسا کر احتجاجاً پولنگ بند کردیا۔ تجابان میں فائرنگ کی گئی جب کہ ہوشاپ کے تمام پولنگ اسٹیشن بند تھے۔ رات 3 بجے تک ہم نے رزلٹ کا انتظار کیا جہان الیکشن ہوا تھا فارم 45 ہمارے پاس موجود ہیں جہاں الیکشن نہیں ہوئے وہاں سب نے دیکھا،

انہوں نے کہاکہ مند میں کئی پریزائیڈنگ افسران کواغوا کرکے ایک گھر میں ٹھپہ مارا گیا جس ثبوت موجود ہیں۔ ڈاکٹر مالک کا کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی اور سیاسی قیادت کو زبردستی آؤٹ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا ،بلوچستان میں نوجوان وفاق سے بہت دور گئے ہیں نیشنل پارٹی کی کوشش رہی کہ نوجوانوں کو جمہوری جدوجہد پر مائل کریں مگر بدقسمتی سے ملک شاہ جیسے شخص کو ایم این اے بنایا جارہا ہے ،ایک ایسے شخص کو مکران لیز پر حوالے کیا جارہا ہے جسے یہاں بیس لوگ تک نہیں پہچانتے۔نیشنل پارٹی دھاندلی کے خلاف پہیہ جام، شٹرڈاؤن اور روڈ بلاک کرنے کے علاوہ ضرورت پڑنے پر جیل بھرو تحریک شروع کرکے قیادت اور کارکنان گرفتاری پیش کرے گی۔
بلوچستان میں 8 فروری کو ہونے والے الیکشن معمہ نہیں بلکہ عجوبہ رہے، عام لوگ جو پہلے ہی پارلیمنٹ سے بدظن تھے، ایسے جھرلو انتخابات اور سیاسی عمل سے بیگانہ لوگوں کو کامیاب بنانے سے مزید دور ہوں گے۔ اس الیکشن کا منفی اثر مستقبل میں بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر مزید واضح ہوجائے گا جب حالات کی تلخی نمایاں ہوتی جائے گی۔