|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2024

بلوچستان کی قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کو بڑی شکست کا سامنا کرناپڑا

جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے زیادہ نشستیں جیت کر مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات کے نتائج سے بلوچستان کی مقامی جماعتوں کو بہت زیادہ مایوسی کا سامنا کرناپڑا ہے اور ان کے لئے پریشانیاں بھی بڑھ گئی ہیں خاص کر قوم پرست جماعتیں تو مکمل پیچھے رہ گئی ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی اس طرح کی کامیابی نہیں ملی جس کی توقع تھی۔

باپ سے تعلق رکھنے والے بیشتر الیکٹیبلز پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں شامل ہوئے جس کی وجہ سے بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہوئی مگر سب سے بڑا دھچکا بی این پی اور نیشنل پارٹی کو لگا ہے جو بلوچستان کی سیاست کا محور ومرکز تصور کئے جاتے ہیں

جن کاسارا ووٹ بینک کا دارومدار ہی بلوچستان ہے انہیں اپنے گھر سے ہی کامیابی نہیں ملی ،اب وہ چند ایک نشستوں کے ساتھ کس طرح سے اتحاد میں جائینگے؟

اگر اتحاد کرینگے بھی تو ان کی پوزیشن بہت کمزور اتحادی کی حیثیت سے رہے گی ان کی مخلوط حکومت پر زیادہ اثر نہیں ہوگا اور نہ ہی اپوزیشن نہ ہی مخلوط حکومت میں ان کا بہت بڑا کردار ہوگا چونکہ ان کے پاس نشستیں ہی نہیں ہیں ۔بہرحال یہ بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کیساتھ جمعیت کے لیے بہت بڑا سیاسی نقصان ہے۔ بلوچستان کے معاملات پر قانون سازی سمیت دیگر مسائل پر ان کا کردار بہت ہی محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے جو کہ ان کے قائدین کے لیے پریشان کن بات ہے۔ بہرحال الیکشن کمیشن نے بلوچستان اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کا اعلان کردیا ہے

۔ پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے جبکہ تین حلقوں پی بی 12، 31، 36 کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی 11 نشستیں حاصل کرکے بلوچستان کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔

دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے 9 ، 9 سیٹیں لی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اور دیگر آزاد امیدواروں نے 6 سیٹیں لی ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی نے 4 ،نیشنل پارٹی نے 3 اور عوامی نیشنل پارٹی نے 2 سیٹیں حاصل کیں جبکہ جماعت اسلامی، حق دو تحریک، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) بھی ایک ایک سیٹیں لینے میں کامیاب رہی ہیں۔

یہ واضح نتائج صوبے میں مخلوط حکومت کی طرف اشارہ ہے

۔عین ممکن ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں مل کر مخلوط حکومت بنائیں اور مری طرز کا معاہدہ کرکے وزارت اعلیٰ کے لیے معاہدہ کریں ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن میں سے کوئی ایک تمام دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملاکر مخلوط حکومت بنائے مگریہ مشکل دکھائی دے رہا ہے

اوراپوزیشن میں کون جائے گا یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے؟ بہرحال بلوچستان میں عام انتخابات کے نتائج نے قوم پرست جماعتوں کو بہت پریشان کرکے رکھ دیا ہے، اب ان کے پاس بلوچستان اسمبلی کا مینڈیٹ تک نہیں ہے اور یہ بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دھرنے اور احتجاج کی سیاست کرینگے

انہیں اسمبلی میں رہ کر ہی اپنے محدود مینڈیٹ کے ساتھ کردار ادا کرنا ہوگا۔

بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو سیاسی نقصان آپسی اختلافات کی وجہ سے ہوا ہے اگر بی این پی اور نیشنل پارٹی اتحاد کرتیں تو شاید بلوچستان میں تھوڑی بہت نشستیں ان کے حصے میں آتیں اور ایک زوردارآوازکے ساتھ اسمبلی کے اندر موجود رہتے مگر انہیں اتحاد نہ کرنے کی وجہ سے بہت بڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔بہرحال ان دونوں جماعتوں کے موقف کو بھی جاننا ضروری ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ

بعض حلقوں میں ان کی یقینی جیت کو ہار میں تبدیل کردیا گیا ہے اور ایسے امیدواروں کو جتوایا گیا ہے جن کی رسائی متقدر حلقوں تک ہے اور ایسے امیدواروں سے آنے والے دنوں میں بلوچستان کے مفادات کے خلاف قانون سازی کا کام لیا جائے گا۔ بہرحال موجودہ الیکشن کے نتائج نے بلوچ قوم پرست جماعتوں کو انتخابی عمل سے متنفر کردیا ہے کیونکہ انتخابی نتائج میں تبدیلی سے انہیں اسمبلیوں سے دور رکھا جارہا ہے جہاں وہ کچھ اور تو نہیں کرسکتے تھے لیکن کبھی کبھار اپنے دل کا بھڑاس نکال لیتے تھے، اب وہ یہ بھی نہیں کرسکیں گے۔