|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2024

بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں جب جہالاوان کا تذکرہ آتا ہے تو سب سے پہلے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اور راہ شون بلوچ سردار عطاء اللہ مینگل کا نام ذہن میں آتا ہے، دو ایسے نام جنہوں نے سیاست کی تو پورے خلوص سے کی اور اصولوں کی روشنی میں اسے زندہ رکھا، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست سیاست کی دونوں بڑے دعویدار پارٹیاں خود کو ان کا حقیقی پیروکار بتاتی ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل الیکشن دو ہزار چوبیس نے سیاسی اور پارلیمانی جد وجہد پر یقین رکھنے والے ہزاروں مجھ جیسے طالب علموں کو اس نظام سے دل برداشتہ کر دیا ہے،اور یقین اس حد تک پختہ ہوگیا ہے کہ موجودہ سسٹم سے کسی بھی بہتری کی امید لگانا عبث ہے کیونکہ فیصلے آج سے پچاس سال بعد بھی وہیں سے ہوں گے جہاں سے ہوتے آ رہے ہیں تاوقتیکہ کوئی “انقلاب” رونما نہیں ہوتا جس کی امید زیرو ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود جہالاوان میں ہمارے لیے باعث افتخار یہ بات تھی کہ یہاں سے ان قوتوںکے براہ راست نمائندے کو ہمیشہ شکست فاش ہوئی، اگرچہ پلان بی کامیاب رہا۔لیکن اس بار جہالاوان کا سر اس افتخار کے بوجھ تلے دب گیا اور ملبے سے تعفن زدہ سیاست برآمد ہوئی۔
اس سیاست میں اصول پیسہ ہے، نظریہ مفاد ہے اور کارکن شخصیت پرست، جہاں بڑے بڑے برج بکے وہیں عام افراد بھی پیسے کی ریل پیل سے خوب بہرہ ور ہوئے۔المیہ یہ ہے کہ پیسہ لگانا پہلے طاقت کے مراکز کے نمائندوں کا طرہ امتیاز تھا اور مقابلے میں ہمیشہ نظریہ کی جیت ہوتی تھی لیکن اس بار پیسہ کا مقابلہ پیسے سے تھا اور جہاں بولی بڑی لگی وہاں منڈی میں رونق بھی خوب لگی۔ہمیں اس بار کی سیاست نے مارکیٹنگ کمپنیوں کا طریقہ واردات بھی سمجھادیا اور منڈیوں میں کرتا دھرتاؤں کی طرف سے قیمتوں کا کنٹرول بھی۔بالکل عید الاضحی سے پہلے کی مویشی منڈی لگی ہوئی تھی، مال پر بولی بھی اسی طرح کی لگتی تھی کہ قیمت پہلے وصول کر لو، وفاداری کی قربانی بعد میں ہمیں بیچ دو، کئی جانور تو تین مالکوں کے پاس بکے اور ہوئے کسی کے بھی نہیں۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ جہالاوان میں نظریاتی سیاست جو سسک رہی تھی اس کی موت عنقریب واقع ہونے کو ہے اور یوں اگلی دفعہ جمعیت علماء اسلام کے صدقے تاریخ میں پہلی بار “وہ” جیتیں گے جن کا جہالاوان سے جیتنا خواب لگتا تھا۔