|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2024

کمبر اور ماہ گنج ہر گزرتے دن ایک دوسرے کے مزید دیوانے ہوتے جارہے تھے ، کمبر اپنے والد کے ساتھ باغوں میں ہاتھ بٹھاتا تھا میری اور بلوچ سیاست پر مسلسل گہرا نظر بھی رکھا ہوا تھا ، شادی کے بعد انگریزوں کے خلاف لڑنے کے کمبر کی جنون ختم نہیں ہوا تھا لیکن مسلع مزاحمت کے لیے کوہی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا ، وہ دن بھی آ گیا کہ ماہ گنج نے ایک بچے کو جنم دیا ، کمبر کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ، نام رکھنے والے دن گھر میں اجلاس ہوا سمندر خان نے مشورہ دیا کہ نصیر خان رکھ دو ، ماہ گنج نے کہا کہ مجھے چاکر نام بہت پسند ہے ، جان بی بی کی خیال تھی کسی نبی یا صحابہ کا نام رکھنا چائیے، کمبر نے سب کی مشوروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا میرا بچہ صرف ایک بلوچ ہوگا جو کسی قبیلے علاقے یا مزہب تک محدود نہیں ہوگا بچے کا نام بلوچ خان رکھتا ہوں ، دن مہنے سال گزرتے گئے ، بلوچ خان چلنے لگا ، ایک رات کھانے کے بعد سمندر خان نے کمبر سے کہا کہ چلو تھوڑا باہر چہل قدمی کرتے ہے ، کمبر اور سمندر خان قلات کی گلیوں میں ٹہلتے ادھرادھر کی باتیں کرتے ہوئے آبادی سے دور نکلے تو سمندر خان نے کہا کہ مکران کی حالت بگڑ چکی ہے محراب خان گچکی اور بلوچ خان نوشیروانی انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے ہیں ، بغاوت کی نام سن کر کمبر کی آنکھیں چمکنے لگے ، اسے ایک بار پھر سالوں پہلے نورگامہ ، سلمانجو ، میرگٹ ، سوہندہ اور گارماپ کی جڑپیں یاد آگئے ،کمبر نے کہا کہ مکران کی بغاوت بہت اہم ہے اور میں اس بغاوت میں ضرور حصہ لوں گا ، اگر ہم مکران کو انگریزی حکومت سے آزاد کرکے وہاں بلوچ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو منصوبہ بندی کے ساتھ ہم پورے بلوچستان سے انگریزوں کی قبضہ ختم کرسکتے ہے ، سمندر خان نے کہا مکران میں بلوچ حکومت قائم ہونے سے بلوچ ریاست کی مرکز قلات کی میری سے مکران کی میری میں منتقل ہوجائے گا ، مرکز ایک بار منتقل ہوگیا پھر کھبی قلات واپس نہیں آئے گا ، کمبر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میری چائیے قلات کی ہو ، مکران کی ہو یہ دونوں بلوچ مرکز کی علامات ہیں ، ان میریوں میں فرق بلوچ دشمنوں نے ہمارے دماغ میں پیدا کیا ہے تاکہ قیادت کی رساکشی کے لیے یہ آپس؎ میں میں ٹکراتے رہے ان کے دیواریں کھوکلا ہوجائے اور وہ باہر سے آکر آسانی سے ان پر قابض ہوجائے ، بچپن میں آپ ہروقت کہا کرتے تھے بابر مغل نے بارہ ہزار لشکر کے ساتھ دہلی کو فتح کیا تھا اگر بلوچوں میں علاقائی اور قبائلی تعصب نہ ہوتے سردار شہیک اور عمر میروانی مشترکہ لشکر تشکیل دیتے تو بلوچ سرزمین کی سرحدیں بنگال ، خلیج فارس اور دریائے آمو تک پھیلے ہوئے ہوتے ، اپ میرا قبلہ وہ لیکن میرا خیال ہے کہ دریائے سندھ سے لے کر کوہ البرز تک جس چاردیوالی میں بلوچ قیادت بلوچ وطن کی مفادات کے لیے بیٹھک لگائے وہی ہمارا میری ہے ، سمندر خان نے کہا کہ تم خفیہ طور پر تجارت کے بہانے خاران جاؤ وہاں سے پنجگور کے راستے کیچ کی طرف نکل جاؤ ، میں وہاں لوگوں کو کہتا ہوں کہ کمبر تجارت کے لیے قندھار گیا ہے ،خیال رکھنا کہ محراب خان اور بلوچ خان کے علاوہ کسی اور کے سامنے اپنے شناخت واضع نہیں کرنا ، کچھ باتیں یاد رکھنا بلوچستان کے ہر علاقے کے رواج الگ ہے ، کوہ سلیمان میں مختلف قبائل کے اتحادوں کے تمن ہے پورے تمن کا ایک سردار ہوتا ہے اور اس کے ماتحت وڈیرے ہوتے ہیں ، جھالاوان اور ساراوان میں ہر قبیلے کا الگ اپنا سردار ہوتا ہے ،لیکن مکران اور خاران کا معاملات الگ ہے یہ غیر قبائلی علاقے ہیں ، خاران اور مکران میں قبائلی نظام نہیں ہے اور نہ ہی قبیلوں کا سردار ہوتے ہیں وہاں علاقوں کے سردار ہوت ہیں ہر علاقے کا ایک سردار ہے اس کے حدودات میں جتنے بلوچ آباد ہیں سارے سردار کے ماتحت ہوتے ہیں ، کمبر اور سمندر خان واپس گھر آئے ماہ گنج اور بلوچ خان سوچکے تھے ، کمبر ماہ گنج کے قریب لیٹ گیا مکران کی بغاوت اس کی سوچوں پہ حاوی ہوچکا تھا ، مکران اور گچکی یہ نام کمبر بچپن سے اپنے والد سے سنتا آرہا تھا ، ملک دینار گچکی کی بلیدیوں سے لڑکر حکومت حاصل کرنا ، شہنشاہ ایران کے خلاف جنگ اور نصیر خان کیخلاف مزاحمت اور شہادت کمبر کے لیے بچپن سے دیومالائی کہانیاں تھے ، کمبر نے بستر سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کردیا وہ سوچ رہا تھا کہ مکران کی بغاوت اور جھالاوان کی بغاوت میں کتنا فرق ہوگا ، محراب خان اور گوہر خان کی بلوچیت اور شخصیت میں کتنا فرق ہوگا ، کمبر نے ماہ گنج اور بلوچ خان کو دیکھا ، کل میں انہیں چھوڈ کر جارہا ہوں پتا نہیں اس جنگ سے زندہ لوٹ کر واپس آؤں گا یا نہیں ، کمبر نے بلوچ خان کو غور سے دیکھ کر سوچا کہ جب یہ بڑا ہوگا یہ مجھے کیا سمجھے گا اپنا مجرم جو انہیں بچپن میں چھوڑکر چلا گیا تھا کیونکہ یتیمی ایک دردناک زندگی ہوتا ہے یتیمی میں انسان کی نہ بچپن کے شوق پورا ہوتے ہے اور نہ جوانی کے خواہشات ، یا بلوچ خان مجھ پر فخر کرے گا کہ اس کی باپ نے اپنے جوانی گھر بار چھوڑکر بلوچ ریاست کی بحالی کے لیے قربانی دینے گیا تھا ، کمبر نے ایک نظر ماہ گنج کو دیکھا سفید رنگ ، گول چہرہ کالے زلفیں جو اس وقت اس کی چہرے پہ بکھری ہوئی تھی ، ماہ گنج کی قیامت ڈھانے والے خوبصورتی کو چھوڈ کر جانا بھی بہت بڑا قربانی تھا ، کمبر ماہ گنج کے قریب بیٹھ گیا اس کی زلفوں کو سنوارنے لگا ، کمبر سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں پھر کھبی ماہ گنج کو دیکھ سکوں گا یا نہیں ، کمبر کے دل میں خیال آیا کہ ماہ گنج کو نیندسے جگادوں آج رات ان سے خوب باتیں کروں اور اس کے جسم سے لطف اندوز ہوجاوں، کمبر انہیں سوچوں میں تھا کہ فجر کی آزان ہوگیا سمندر خان ، جان بی بی اور ماہ گنج نیند سے اٹھ کر نماز کی تیاری کرنے لگے ، دوپہر کے بعد کمبر نے ماہ گنج کو اپنا پروگرام بتایا اور نصیحت کیا کہ اگر میں شہید ہوگیا تو رونے ماتم کرنے کے بجائے شان سے بیٹھ کر لوگوں سے میرا فاتحہ لینا اور بلوچ خان کی تربیت ایسے کرنا کہ وہ ایک مکمل بلوچ بن جائے گا ، ماہ گنج کی آنکھوں سے انسو نکل گئی کمبر کو خدا حافظ کہنے کے لیے شہر سے باہر دور تک کمبر کے ساتھ گئی، جب آبادی سے کافی دور نکل گئے تو کمبر نے کہا اب واپس جاو ، ماہ گنج کمبر کا چہرہ دیکھے بغیر پلٹ گئی کمبر نے بھی پیچھے مڑکر کر نہیں دیکھا اور خاران کی طرف روانہ ہوگیا ، کمبر مختلف راستوں سے آہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے خاران کے مرکزی شہر میں شام کے وقت پہنچ گیا ، قلعے کے مرکزی دروازے پہ کچھ سپائی کھڑے تھے ، خادم ادھر ادھر گھوم رہے تھے ، قلعے کے جنوبی طرف بازار میں کوئی رش کش نہیں تھا جس طرح قلات کے بازار میں ہوتا ہے ، کمبر کو خاران قلات کی نسبت سنسان جگہ لگا ، کمبر نے قلعے کی دروازے کے پہرہ دار سے کہا کہ سردار نوروز خان سے ملنے آیا ہوں ، پہرہ دار نے سردار تک پیغام پہنچایا حکم ملا کے مہمان کو مہمان خانے میں لے جاو اور کل صبح ملاقات کے لیے دیوان کے جگے پہ لانا۔ (جاری ہے)