|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2019

میرا ضدی دوست نہ جانے کن خیالات کا مالک ہے بات بات پر اصرار کرتا ہے مکالمہ کرتا ہے سوالات کا انبار لگا تا ہے ۔ اکتا جاتا ہوں ۔ چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہوں بیزار ہوکر کہیں دور چلا جاتا ہوں۔ مسجد گیا مندر گیا مزارات پر حاضری دی, دعائیں کیں، منتیں مانگیں نہ دعاؤں کا اثر ہوا اور نہ ہی منتیں پوری ہوئیں ۔ ہمت ہار کر بیٹھ گیا۔ وہ یکطرفہ مکالمے کا آغاز کرتا ہے میں چپ کرکے سنتا ہی چلا جاتا ہوں۔ روز نئے قصے کہانیاں۔ ایک نیاقصہ جو اُس نے چھیڑ دیادل ہی دل میں سلامتی کا خیال آیا۔ 

قصے کہانیاں سنتے سنتے کان پک گئے دماغ کی دہی بنتی درخواستیں کرتا بھلا میری استدعا کی کیا اوقات۔ ہمیشہ عرض کرتا چلا آرہا ہوں ریاضت کریں، لذیز کھانوں کا ذکر چھیڑا کریں، مرسڈیز گاڑیوں کی قصے کہانیاں، دولت کی ریل پیل، مراعات و پوزیشنوں کا حصول،مجاز آفیسر کی خوشنودی وغیرہ وغیرہ کی باتیں کریں۔ اب یہ کیا، تم آکر غربت کی کہانیاں چھیڑتے ہو، ظلم کی داستانیں سنانے لگتے ہو۔ اب بھلاایسی کہانیاں کون سنے۔۔ اب تو ہر طرف رنگینی اور خوشحالی ہے سدابہار باتیں کریں پتہ نہیں ذہن میں کیسی کچھڑی پکارہے ہو،منہ سے ہمیشہ مایوسی کی باتیں جڑتی رہتی ہیں۔

کیا کروں یار مایوسی میرے چاروں طرف انگھڑائی لینے لگتی ہے۔ ظلم کی داستانیں آنکھوں کے سامنے عیاں ہو کر زبان سے بیان ہونے لگتی ہیں۔ اپنے آپ کو سنانے لگتا ہوں رات کی تاریکی میں خاموش دیواروں سے ہم کلام ہونے لگتا ہوں کتابوں سے مکالمہ کرنے لگتا ہوں۔ مگر یہ ہیں کہ جو آپ کی طرح سنتے ہیں بس سنتے ہی چلے جاتے ہیں خدا کرے گونگوں کو کوئی زبان مل جائیمیں ان کی زبانی ان کی کہانی سن پاؤں ورنہ تنہا مکالمہ کرتے کرتے پاگل قرار نہ دیا جاؤں۔۔

یار ویسے آپ کو ایک بات بتا دوں اپنی آنکھوں کا علاج کرا لیں لگتا ہے کہمسئلہ نظام کا نہیں آپ کی آنکھوں کا ہے جب تک تمہاری نظریں ٹھیک نہیں ہوں گی اس وقت تک آپ جسمانی و نفسیاتی طور پر ڈسٹرب ہوتے رہیں گے اور ہمیں ڈسٹرب کرتے رہیں گے۔ یار آنکھیں تو میری ٹھیک ہیں آپ باتوں کا خواہ مخواہ بھتنگڑبنا لیتے ہودوست نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

’’ناراض مت ہوجائیں یار‘‘۔۔ کل ہی آپ تعلیمی نظام کو سنا رہے تھے میں خاموشی سے آپ کو سنتا چلا جا رہا تھا آپ نے نظام کی کون کون سی برائیاں بیان نہیں کیں۔۔ حالانکہ نظام کو اگر اپنی نظر سے نہیں میری نظر سے دیکھیں تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے تبدیلی ہی تبدیلی ہے جس تبدیلی کا خواب میں نے اور آپ نے دیکھا تھا جس کے نعرے ہم نے اپنی کانوں سے سنے تھے۔ 

یہاں کا وزیرتعلیم اب بی اے پاس نہیں رہا۔ تعلیمی اداروں کا باقاعدگی سے دورہ کرتے ہیں ، لمبی لمبی تقاریر کے بجائے مقالے پڑھتے ہیں اور لیکچر دیتے ہیں ۔ کسی زمانے میں کلاس رومز کے اندر بلیک بورڑ کلچر ہوا کرتا تھا اب ان کی جگہ وہاں لگے بڑے بڑے اسکرین آویزاں ہیں چاک اور ڈسٹر کی جگہ ماؤس اور کی بورڈ نے لے لی ہے۔ بچے کتابوں کی بوجھ سے آزاد ہوگئے ہیں۔ 

اب انہیں رٹا لگانے کی ضرورت ہی نہیں اور نہ ہی اساتذہ کو گھر سے تعزیتی ریفرنس لانے کی۔ لیبارٹریز فعال ہو چکے ہیں تمام سائنسی تجربات و مشاہدات کیے جارہے ہیں۔ مزید کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے یوٹیوب کے ذریعے اس کا خاکہ سمجھایا جاتا ہے۔ بچے اتنے ٹرینڈ ہو چکے ہیں کہ انہیں منی سائنسدان قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

میں نے گفتگو جاری رکھی ،اور تو اور اساتذہ کو اب تنخواہیں اور مراعات اتنی مل رہی ہیں کہ پوری بیوروکریسی نے کرپشن سے توبہ کرکے ٹیچنگ کا شعبہ جوائن کیا ہے اور جو ٹیچرز تھے انہیں بیوروکریسی کی پوزیشن پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اساتذہ کے لیے بڑے بڑے رہائشی مکانات بنائے گئے ہیں۔ نوکر چاکر ہیں۔ راتوں رات اساتذہ کی عزت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وزیر کو ان کے آگے احتراماً کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جگہ جگہ تعلیمی نظام کا بول بالا ہوگیا ہے۔ نئی نئی دریافتیں ہو رہی ہیں۔ پرائمری اسکول ٹیچر کے لیے ایم فل کی ڈگری لازمی قرار دی جا چکی ہے اور ٹیچرز ٹریننگ کے لیے بیرون ملک بڑے بڑے اداروں کی خدمات لی جا رہی ہیں۔ 

دوست نہ جانے کن خیالوں میں گم تھا میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی دنیا میں لانے کی کوشش کی ، دوست چونک پڑا میں نے مکالمہ جاری رکھا۔ حکومت نے تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لا کر اسے فری زون قرار دیا ہے اور ملکی معیشت کا آدھا حصہ اسی شعبے پر لگاکر یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کا اعلان کیا ہے۔پرائیوٹ اسکول و مدارس بند ہو چکے ہیں۔پرائیویٹ اسکول مالکان اب سرمایہ کاری کے لیے نئے شعبہ جات کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ مدارس میں فقط پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہے۔

دوست نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ جھوٹے خاکے بیان کرنے اور قصیدہ گوئی کے لیے صحافی اور سیاستدان ہی کافی ہیں۔ تم نہ صحافی ہو اور نہ ہی سیاستدان ایسی خصلتیں تمہارے اندر کیسے آگئیں۔ دوست کو کیسے یقین دلاتا مجھے اُس کلینک کا خیال آیا جہاں آنکھوں میں سیاسی ڈراپ ڈال کر معاشرتی امراض کا علاج کیا جارہا تھا ،مکالموں کی سرجری کی جا رہی تھی ۔ دوست کے ساتھ بھی ہم نے یہی کیا۔ سوالوں سے آزادی کے لیے مکالموں کی سرجری کرائی۔اب کی بار دوست جہاں بھی جاتا تبدیلی کا نعرہ لگاتا لوگوں کو سبز باغ دکھاتا ۔من ہی من میں خوش ہو جاتا۔