اس وقت ملکی ’غیرجانب دار‘ میڈیا کو دیکھو تو برطانوی جوڑے کے دورہ پاکستان کا چرچا ہے، کچھ اس طرح کی خبریں چل رہی ہیں، ”برطانوی شاہی جوڑے نے فیصل مسجد میں خاموشی سے قران کی تلاوت سنی۔۔۔۔ شاہی جوڑا ائیرپورٹ پہنچ گیا۔۔۔ شہزادی نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہیں۔۔۔۔شہزادہ ولیم نے ایک بچے کے سرپر ہاتھ رکھی“۔ لیکن کوئی گلہ نہیں،کوئی شکوہ نہیں کرو کیونکہ غلام سوچتے ہیں تو اپنی ”غلامانہ“ ذہنی مقدار میں، ملکی میڈیا سمیت مملکت خداداد میں بسنے والوں کو یہ خبر تو معلوم ہونی چاہیے کہ علامہ محمداقبال نے خواب کیوں دیکھا تھا۔۔۔! پھر اسی خواب کو لیکر اُن کے چاہنے والوں نے برصغیر میں ایک الگ ملک کا مطالبہ کس سے کیا؟ اور آج انہی کے آنے پر یہ بے وقوف قوم اتنا خوش کیوں ہے؟ خدا کرے برطانوی شاہی جوڑا جاتے وقت حکومت پاکستان کے لنگر خانے میں کچھ ڈال کر چلا جائے(آمین)۔
بلوچی میں ایک کہاوت ہے “زمین ھمودا سُچیت کہ آسے پر اِنت” یعنی زمین وہاں جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو۔ بلوچستان ستر سالوں سے جل رہا ہے، اور ”سب مسلمان بھائی بھائی“والے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں،ویسے آگ لگانے والے بھی تو وہی ہیں نا۔۔۔!اس آگ کی تپش کتنی زیادہ ہے یہ بلوچستان والوں سے جاکر پوچھو، جو جھلس گئے ہیں۔
حالیہ دنوں بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارہ جامعہ بلوچستان میں طالبات کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی نے یونیورسٹی میں چھاپہ مار کر سی سی ٹی وی کیمروں سے شواہد اکھٹے کیئے،دوسرے ہی دن یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک سینئیر ملازم کو نوکری سے معطل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
خبر صرف یہاں تک نہ رُکی، مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل سمیت مختلف ڈیپارٹمنٹس کے واش رومز میں خفیہ کیمرے لگائے ہوئے تھے جس سے وہ طالبات کو بلیک میل کرتے تھے۔واقعے کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو اس واقعے کی انوسٹی گیشن کرے گی جبکہ دوسری جانب جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر (جو اس بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے والے گروپ کا ماسٹر مائنڈ ہے) نے میڈیا کو جاری کردہ ایک ویڈیو کلپ میں اداروں سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ویسے عجیب ملک ہے جس کا نام مجرموں میں شامل ہے وہی انصاف دلاتا ہے۔ ہم نے تو سنا تھاکہ وائس چانسلرز ایک مختصر دورانیے کیلئے آتے ہیں لیکن یہ مرد مجاہد جس کا نام جاوید اقبال ہے کئی سالوں سے بحیثیت وائس چانسلر جامعہ میں ’’احسن“ طریقے سے کارکردگی سرانجام دیتا چلا آرہا ہے۔
موصوف کی”احسن“ کاکردگیوں میں سے گزشتہ پانچ سالوں کے اندریونیورسٹی میں 700ایف سی اہلکاروں کی تعیناتی، صوبے کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کو ایک فوجی کیمپ میں بدلنا،جامعہ کے مین گیٹ پر طلباء و طالبات کا سیکورٹی کے نام پر تذلیل،کیمپس میں پولیٹکس اور طلباء تنظیموں پر پابندی شامل ہیں جبکہ طلباء و طالبات کو واش رومز کے خفیہ کیمروں سے بلیک میل اور ہراساں کرنا ان کی بحیثیت ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کے نئے کارنامے ہیں۔ اقبال کے شاہینوں سے گزارش ہے کہ خیبرپاس کے بعد برطانوی شاہی جوڑے کو یہاں بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملاتے جائیں تاکہ وہ انکے احسن کارکردگیوں پر بھی کچھ داد دیں۔
کئی دنوں سے دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں طلباء تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کے احتجاج و مظاہرے جاری ہیں، جامعہ بلوچستان میں بھی بندوق کے سائے تلے زندہ طلباء و طالبات خوف کی زنجیریں توڑتے ہوئے احتجاج پر نکل آئے ہیں۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باجود اب تک اس اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور نہ ہی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح کا واقعہ پیش آنے کے بعد گورنر بلوچستان فوری طور پر وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹا دیتے لیکن گورنر صاحب ہنوز پس و پیش سے کام لے رہے ہیں، نہ جانے کیوں؟
بلوچ قوم جو ہزاروں سال کی ایک زندہ تہذیب رکھتی ہے اور بلوچ معاشرے میں خواتین کا ہمیشہ ایک اعلیٰ مقام رہا ہے، خواتین کی عزت کیلئے اس قوم نے کئی جنگیں لڑیں،نہ صرف بلوچ بلکہ اس خطے میں رہنے والے پشتون بھی اس معاملے میں آگے ہیں لیکن آج افسوس کا مقام ہے کہ باہر سے آیا ہوا ایک وائس چانسلر جس کو نہ ہمارے ثقافتی اقدارکا معلوم ہے اور نہ ہی یہاں رہنے والوں کی اخلاقی،سماجی اور سیاسی اقدار کا پاس ہےَ
تمام چیزوں کو روندتے ہوئے اس طرح کی حرکتیں کررہا ہے اور گورنر سمیت دیگر حکام خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔جہاں ایک طرف بلوچستان کی بچیاں چیخ چیخ کر تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ کے خلاف احتجاج پر ہیں تو وہاں شہر اقتدار والے موسم کی موجوں میں رقص کناں ہیں اور مملکت خداداد کا غیرجانب دار میڈیا ہمیشہ کی طرح ملکی مفاد کی خاطر ’مثبت رپورٹنگ‘ سرانجام دیتے ہوئے برطانوی شاہی جوڑے کو کوریج دے رہی ہے۔
ٓٓٓ