کو ئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پرمشتمل دو رکنی بینچ نے جامعہ بلوچستان اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کا معاملہ پورے صوبے کامعاملہ ہے، ہمارے بچے جامعہ بلوچستان میں پڑھتے ہیں۔
سب کی نظریں تحقیقاتی اداروں اور پارلیمانی کمیٹی پر ہیں،عدالت کسی بھی ادارے پر اثرانداز نہیں ہوگی تاہم آخری فیصلہ عدالت ہی کریگی۔غیر متعلقہ افراد کو فوری طورپر یونیورسٹی اور ہاسٹلز سے بے دخل کیاجائے۔منگل کے روز ڈویژنل بینچ کے روبرو ہراسمنٹ سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر بلوچستان اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی کی چیئرپرسن ماہ جبین شیران، ممبران کمیٹی ثناء اللہ بلوچ، اسد بلوچ، شکیلہ نوید دہوار، قائم مقام وائس چانسلر انور پانیزئی اور ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان ارباب طاہر ایڈووکیٹ ودیگر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو ایف آئی اے کی جانب سے جامعہ بلوچستان اسکینڈل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل نے کمیٹی میں شامل اراکین اسمبلی،تحقیقاتی اداروں ودیگر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس سلسلے میں ایف آئی اے تحقیقاتی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
بلکہ ہم بھی نگرانی کررہے ہیں،جامعہ بلوچستان کامعاملہ پورے صوبے کا معاملہ ہے۔ یہاں صوبے بھر سے طلباء وطالبات حصول علم کیلئے آتے ہیں،اسکینڈل کے باعث طالبات اور ان کے والدین پریشانی کا شکار ہیں۔ خوشی ہے کہ ارکان اسمبلی، ایف آئی اے اور حکومت نے معاملے پر بھرپور ردعمل دکھایا۔اس موقع پر پارلیمانی کمیٹی کی چیئرپرسن ماہ جبین شیران نے عدالت کو بتایاکہ یونیورسٹی اراکین نے یونیورسٹی کادورہ کیاہے۔
بلکہ شکایات رکھنے والوں کیلئے اخبارات میں اشتہار بھی مشتہرکردئیے گئے ہیں تاہم ابھی تک کمیٹی کے سامنے کوئی بھی پیش نہیں ہوسکاہے۔اس موقع جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہم سب کامقصد ایک ہے لوگ یونیورسٹی انتظامیہ کوواحد کا درجہ دیکر اپنے بچوں اور بچیوں کو حصول علم کیلئے یہاں بھیجتے ہیں ہم سب کو کہتے ہیں کہ وہ عدالت پر بھروسہ رکھیں احتجاج کا سلسلہ ختم ہوجاناچاہیے۔
اس موقع پر کمیٹی کے رکن ثناء بلوچ نے کہاکہ ہمیں طلباء وطالبات اور ان کے والدین کے اعتماد کو بنانا ہے تاکہ وہ شکایات درج کریں،ہمارے پوچھنے پریونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بتایاگیاکہ یونیورسٹی میں 20فیصد طالبات زیر تعلیم ہیں،وائس چانسلر کے پاس 200شکایات درج کی جاچکی ہیں لیکن ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
انہوں نے عدالت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کیمرہ آپریٹرز کو کسی قسم کی تربیت حاصل ہے نہ ہی انہیں کسی ضابطہ اخلاق سے متعلق معلومات ہیں،کمیٹی تحقیقاتی ادارہ نہیں نہ ہی یہ سزا دے سکتی ہے،انہوں نے بتایاکہ ایف آئی اے کی جانب سے کمیٹی کو تحقیقاتی رپورٹ کی حوالگی نہیں ہوسکی ہے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے کی رپورٹ کمیٹی کو حوالے کردی جائیگی ہمیں بہتری کی طرف جاناہے۔
بلکہ تمام تعلیمی اداروں اور کالجز کو بھی محفوظ بناناہے عدالت کسی ادارے پر بھی اثرانداز نہیں ہوگی تاہم آخری فیصلہ عدالت کا ہی ہوگا،یونیورسٹی کے اندر ادارے غیر فعال ہیں۔حکومت کی ذمہ داری کام کرناہے۔ ایف آئی اے کو اس لئے مشکل کا سامنا ہے کہ کوئی سامنے نہیں آرہا،چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام غیر متعلقہ افراد کو بے دخل کیاجائے۔
بیرسٹر سیف اللہ نے کہا کہ جامعہ بلوچستان کا معاملہ حساس معاملہ ہے، اعتماد کی بحالی ہوگی تو لوگ سامنے آئیں گے۔سماعت کے دوران عدالت کوبتایاگیاکہ یونیورسٹی کے اکثر عہدیداران ایڈہاک پر ہیں،خواتین کی پروہوسٹ ہاسٹل اور دیگر ایڈہاک پر ہے۔ثناء بلوچ نے بینچ کو بتایاکہ وہ جب یونیورسٹی گئے تو ان کے علم میں یہ بات آئی کہ یونیورسٹی میں ابھی تک کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی جاسکی ہے۔
بینچ کے ججز نے قائم مقام وائس چانسلر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کی خود نگرانی کررہی ہے واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ تمام مطالبات پورے ہورہے ہیں،ہمارا مقصد مجرم کو پکڑنا اور یونیورسٹی کی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ ہم ایف آئی اے کی تحقیقات یا کمیٹی پر اثر انداز نہیں ہوں گے،کلاس فور کے کتنے ملازمین ہیں،150ملازمین کو انٹرنی کے طورپر رکھاگیاہے۔
بلکہ کینٹین بھی بغیر نیلامی دی گئی اس موقع پر وائس چیئرمین ہیومن رائٹس نے بینچ کو بتایاکہ ان کی جانب سے ستمبر میں تحقیقات کی گئی تھی جس کی رپورٹ مرتب کی جاچکی ہے لیکن اسے ابھی تک شائع نہیں کیاگیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء سے ملے اور جمنازیم میں فورسز کو رہائش پذیر پایاجس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جمنازیم اور یونیورسٹی کے کوریڈور سے فورسز کو نکالاجائے۔
اس موقع پر قائم مقام وائس چانسلر نے عدالت کو بتایاکہ اس کی حال ہی میں تعیناتی ہوئی ہے وہ جلد بازی میں ایسا کام نہیں کرناچاہتے جن میں غلطیوں کااہتمال ہو،جس پر ڈویژنل بینچ نے قائم مقام وائس چانسلر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس مکمل اختیار ہے کہ ایکٹ کے مطابق کارروائی کریں،ہم ریلیف نہ دیں تو اساتذہ اور دیگر کہاں جائیں گے؟
یونیورسٹی اور سینڈیکیٹ کو فعال نہیں کیاجاسکاہے،سیکورٹی اور دیگر سے متعلق ایس او پیز بنائے جائیں اور یونیورسٹی ایکٹ پرعملدرآمد کیاجاناچاہیے،عدالت نے ہدایت کی غیرمتعلقہ افراد کو فوری طورپر یونیورسٹی سے بے دخل کیاجائے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سینڈکیٹ کے اگلے اجلاس میں خود شرکت کی کوشش کروں گا،ہم زمانہ طالب علمی میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر ہاسٹل پر قبضے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہم ہراسمنٹ کی اس پٹیشن کو برقراررکھیں گے چاہے دو سال کیوں نہ لگیں،ہم آخری حد تک جائیں گے،کمیٹی کے اراکین نے بینچ کو بتایاکہ یوبی اینز سے متعلق انہیں کوئی ریکارڈ نہیں دیاگیاہے اور نہ ہی یہ بتایاگیاکہ کتنے لوگ صوبے سے باہر ٹورز پر گئے اور کتنوں کو لیپ ٹاپس فراہم کردئیے گئے،اس سلسلے میں انہیں کوئی باضابطہ ریکارڈ فراہم نہیں کیاجاسکاہے۔
بینچ کے ججز نے ریمارکس دئیے کہ 2016ء کے ایکٹ کے تمام مطابق تمام آئی ٹی ڈیوائسز جن میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ شامل ہیں کی فرانزک ہوسکتی ہے یونیورسٹی میں جہاں کیمرے لگے ہیں وہاں لکھاجائے کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔کمیٹی کے اراکین نے بینچ کو بتایاکہ ڈراپ آؤٹ کی دھمکی کے ذریعے بھی طالبات کی ہراسمنٹ ہوتی ہے۔
سماعت کے دوران کمیٹی رکن شکیلہ نوید دہوار نے بینچ کو بتایاکہ ویڈیوز بنانے کی ان کے پاس ثبوت ہیں اور وہ اس سے پیش کرسکتی ہیں تاہم عدالت نے کمیٹی جامعہ بلوچستان،انتظامیہ ودیگر کو رپورٹ کو پبلک نہ کرنے اور ویڈیوز سمیت دیگر ثبوت چیمبر میں پیش کرنے کی ہدایت کی بعدازاں سماعت 14 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی