آواران: بلوچستان ایجوکیشن سسٹم نے آواران میں گزشتہ ایک ہفتے کی مہم جوئی کے دوران 176ایسے سکولوں کا سرغ لگایا ہے جو بند ہیں۔ 104سکول وہ ہیں جو 2018 کو منظور ہوئے تھے مگر تعلیمی سلسلہ تاحال شروع نہیں کیا جا سکا۔ کئی سکول ایسے ہیں جو 15یا 20 سالوں سے بند ہیں۔ کئی سکول عمارات سے محروم ہیں۔ جن کی عمارتیں ہیں وہ خستہ حال ہیں۔
زیادہ تر اساتذہ آفیسران کی پیرول پر آزاد گھوم رہے ہیں۔مہم کے آرگنائزر شبیر رخشانی کا کہنا ہے کہ مہم کا آغاز جو ہم نے ایک بند سکول سے کیا تھا۔ جوں جوں مہم جوئی کا عمل آگے بڑھتا گیا توں توں ایسے ریکارڈ سامنے آگئے کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ضلع بھر کی زیادہ تر سکولز بند ہیں۔ اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال نے بچوں کو تعلیمی میدان سے دور کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آواران کی نظام تعلیم کا جو نقشہ ضلعی تعلیمی آفیسران نے کھینچا ہے اور جن کی آشیرواد سے سکول بند ہیں اس کے بعد ان کا سیٹ پر موجود رہنا مزید اس بات کو دوام دینا ہے کہ آ بیل مجھے مار۔ ضلعی آفیسران کو نہ صرف برطرف کرکے ان کی جگہ ضلع سے باہر کا ماہر تعلیم تعینات کرکے کاروائی آغاز کرے بلکہ ایک غیر جانبدار تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے جو سکولوں کی تباہ حال نظامِ تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے پورے ضلع کا دورہ کرے، کمیونٹی کے ساتھ ملے۔
انہوں نے کوئٹہ کی صحافی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ علاقے کا دورہ کرکے تعلیم سے متعلق حقائق کو سامنے لانے میں ہماری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اگر کوئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔
یا صحافی برادری علاقے کا دورہ کرتا ہے تو بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کی ٹیم رضاکارانہ طور پر ان سکولوں کی نشاندہی کرنے، معلومات فراہم کرنے اور ان کرداروں سے ملوانے کے لیے تیار ہے جو موجودہ نظام تعلیم اور سکولوں کی بندش سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔