|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2019

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی نے تاوان کے لیے اغواء کئے گئے نوجوان غوث اللہ کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر صوبے میں دہشت گردی اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اپوزیشن سید غوث اللہ سمیت دیگر واقعات پر سیاست نہیں کرنا چاہتی بدامنی کے واقعات کے تدارک کیلئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

سید غوث اللہ کے قتل سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے جبکہ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے اراکین اسمبلی کو سید غوث اللہ کے قاتلوں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ سید غوث اللہ کے قتل کے واقعے کو ہم نے ٹیسٹ کیس کے طو رپر لیا ہے اور ہم جلد ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

پیر کے روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے کی گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اغواء برائے تاوان کے واقعے میں 14اگست کو نوجوان غوث اللہ کو اغواء کیا گیا اور ان کے لواحقین سے پچاس لاکھ روپے تاوان لینے کے باوجود 14نومبر کو انہیں شہید کرکے لاش میزئی اڈے کے قریب پھینک دی گئی۔

ہم نے متاثرہ خاندان سے جا کر ملاقات کی وہ اس وقت شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں گھر کے افراد گھر سے نکلتے ہوئے اپنی سیکورٹی کے لئے انتہائی پریشان ہیں یہ ایک بڑا المیہ ہے اغواء برائے تاوان کے واقعات حکومت اور دیگر اداروں کی موجودگی میں سمجھ سے بالاتر ہیں ہم سب آئین کے پابند ہیں کہ اپنے فرائض سرانجام دیں مگر اس وقت عوام عدم تحفظ کا شکار اور ملزمان سرعام گھوم پھر رہے ہیں جویقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اغواء برائے تاوان کوئی معمولی جرم نہیں ہوتا اور نہ ہی فرد واحد اس میں ملوث ہوتا ہے بلکہ پورا گروہ شامل ہوتا ہے اغواء برائے تاوان کے واقعات سے عوام میں بے چینی اور خوف و ہراس پایا جاتا ہے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے اور واقعے میں ملوث عناصر کو گرفتار کرکے کڑی سزا دے۔

نصراللہ زیرئے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ پھر صوبے میں دہشت گردی اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے مسلح افراد سرعام سڑکوں پر گھوم ررہے ہیں مسلح افراد کو کوئی روکنے والا نہیں سید غوث اللہ کو 14اگست کو اغواء کیا گیا تھا اور4نومبر تک مسلسل اس کے والد کو تاوان کی ادائیگی کے لئے فون کالز کئے جاتے رہے اور پچاس لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے بعد اسے قتل کرکے لاش پھینکی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سید غوث اللہ کے قتل کے بعد کسی بھی حکومتی رکن نے اس کے گھر جا کر فاتحہ خوانی تک نہیں کی جبکہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں مقتولین کے ورثاء کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بلا کر تعزیت کی جاتی ہے جو افسوسناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء کے بعد حکومت نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر کیا ریکارڈ اٹھا کر دیکھا جائے اس دوران صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے کتنے واقعات رونما ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ سید غوث اللہ کے قتل سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے۔