المیوں کی گود میں پرورش پاتے،ایک کے بعد ایک سانحے سے دوچار ہوتے، اپنے نصیب کے پہاڑوں سے سرٹکراتے، لٹتے پٹتے بلوچستان پہ ایک اور سانحہ گزر گیا۔ایک پُروقار مگر ناقابلِ ازالہ سانحہ۔ بیشتر اختلافات کے باوجودعہد حاضر میں بلوچ ڈائسپورا کا سب سے بڑا رہنما ابدی نیند جا سویا۔ سردار خیر بخش مری کی رحلت کے بعد بلوچوں کی اکثریت نے واقعتا خود کو تنہا اور یتیم محسوس کیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک عرصے سے صاحبِ فراش تھے۔ آخری سانسوں سے قبل بھی کوئی ہفتہ بھر ہسپتال میں رہے۔ ان کی حالت کے پیش نظر ان کی ابدی سفر پہ روانگی غیر متوقع نہ تھی، لیکن اس کے باوجود ان کی وفات کی خبر نے جیسے بلوچ سماج پہ سکتے کی سی کیفیت طاری کر دی۔ خبر یقینی تھی،حقیقی تھی، اس سے بڑھ کر متوقع تھی، لیکن ان کی رحلت کی خبر سے لے کر (ماسوائے تدفین کی رسومات کے) اب تک سوگ سے کہیں زیادہ سکتے کی سی کیفیت پورے سما ج پہ طاری ہے۔ سائبیریا سے آئے آدمی کوا چانک سبی کی گرمی میں بے سایہ پھینک دئیے جانے کا سا احساس، اکلوتے ساتھی، ہم دم و ہم راز کے چھن جانے کا سا دکھ، دائمی جدائی کا سا روگ۔۔۔جیسے میدانِ جنگ میں اچانک سپہ سالا رکی موت کی خبر آ جائے۔ رانجھے کے لیے جیسے ہیر کی موت کی اطلاع، مست کے لیے گویا سمو کی ابدی جدائی!
بلوچستان کے ہزاروں سیاسی کارکنوں سمیت جو تین سردار بلوچستان کی جدید ترقی پسند سیاست کے امام میر غوث بخش بزنجو کی سیاسی امامت پہ دست بیعت ہوئے ان میں اولین، جواں ترین اور پختہ فکر خیر بخش مری تھے۔ اکبر بگٹی سے یہ بھاری پتھر تادیر نہ اٹھایا جا سکا۔دو ہزار چھ میں ایک الم ناک لیکن تاریخ ساز موت سے دوچار ہو کر وہ بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ اس تکون کے تیسرے اور آخری زندہ کردار عطاللہ مینگل کی سیاست بلوچستان میں کب کی معدوم ہو چکی۔ سو، اس صورت میں بلوچستان کی نصف صدی پر مشتمل سیاست کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعتا یہ ایک اختتام ہے، یا ایک نئے عہد کا آغاز !۔۔۔عمر بھر خاموشی میں مورچہ زن رہنما کی پُروقار رحلت نے ایک ’خاموش فکر‘ کو جنم دیاہے، جو یوں تو کہیں نہیں لیکن ایک غیر محسوس انداز میں ہر جا ہو رہی ہے، اور نہایت شدت سے ہو رہی ہے۔ خیر بخش مری بلوچستان کی سیاست میں ایک رحجان ساز رہنما رہے۔ حتیٰ کہ ان کی موت بھی کئی معنوں میں بلوچستان میں نئے رحجانات متعارف کروانے کا باعث بنی۔ ابدی خاموشی کی دھند میں لپٹی لاش ایک بند تابوت میں ہوتے ہوئے، بلوچستان کو ایک نئے انداز میں متحرک کر رہی تھی۔ بلوچ طلبا اور مزاحمتی تحریک سے ہمدردی رکھنے والے افراد جو ایک عرصے سے زیر زمین چلے گئے تھے، جن کی زمینی سرگرمیاں موقوف ہو کر رہ گئی تھیں، اس لاش کی پروقار تدفین کے لیے اُس روز کوئٹہ کے ہاکی گراؤنڈ میں اُمڈ پڑے۔ یہ ہزاروں لوگوں کا اجتماع تھا، جس میں بلوچستان میں بسنے والی لگ بھگ ہر نسل کے افراد شامل تھے۔ لیکن اس لحاظ سے یہ ایسا اولین اجتماع تھا، جہاں نمازِ جنازہ میں سیکڑوں خواتین جمع تھیں۔ بلوچ شہدا کی مائیں، بہنیں بنا کسی ترغیب کے ٹولیوں کی صورت میں جوق در جوق جمع ہوئیں۔ لاش کو نواب کے بڑے بیٹے اور ان کے جانشین سے ’چھیننے‘ کا کارنامہ انھی خواتین نے باقاعدہ لڑ کر انجام دیا ۔چند ہی ثانیوں میں لاش ’’سیاسی ورثا‘‘ کی تحویل میں چلی گئی، خاندانی ورثا بے بسی سے دیکھتے رہ گئے۔ یہ بلوچستان کا پہلا سیاسی جنازہ ہو گا، جسے بلوچ خواتین کا کندھا نصیب ہوا۔دنیا بھر کے انقلابیوں کے امام چے گویرا نے کہا تھا کہ ،’موت ہمیں جہاں کہیں بھی ملے ہم اس کا بھرپوراستقبال کریں گے،بشرطیکہ نوجوان آگے بڑھ کرہماری بندوقیں اٹھانے کو تیار ہوں، اور ہمارے جنازے گولیوں کی گونج میں اٹھائے جائیں۔‘ایک زمانے میں ’بلوچستان کا چے گویرا‘کا خطاب پانے والے خیر بخش مری کا جنازہ کچھ ایسے ہی وقار سے اٹھاکہ اس نے اپنے ساتھ بلوچستان میں کئی روایتوں کے جنازے اٹھا دئیے۔ ایک نئی روایت اگر کسی جنازے میں بلوچ خواتین کی شرکت تھی، تو دوسری طرف سردار کا بڑا بیٹا،جو روایت کے مطابق سردار کے بعد سرداری کا وارث ہوتا ہے، بھرے مجمعے میں اس کے ساتھ جو سلوک اختیار کیا گیا، وہ کسی طور اس کے شایان شان نہ تھا۔ لیکن یہ رویہ بلوچستان میں ایک نئی روایت کا پیش خیمہ بھی تھا، کہ سرداری اب محض ملکیت کی وراثت نہیں رہی، یہ فکری وراثت کا بھی تقاضا کرتی ہے، جو یہ بھاری پتھر اٹھا پائے گا، مستقبل کے بلوچستان میں اب وہی قابلِ تکریم ٹھہرے گا۔ نیز، خیر بخش مری کی کوئٹہ میں تدفین بھی ایک تاریخ ساز اور ’رحجان ساز‘ فیصلے کے بطور یاد رکھی جائے گی۔ گو کہ اس سے قبل بلوچستان میں جدید سیاست کے بانی مبانی میر یوسف عزیز مگسی بھی کوئٹہ کے مشہورِ زمانہ زلزلے کے نتیجے میں مرگِ ناگہانی کے باعث یہیں کوئٹہ کے کانسی قبرستان میں دفن ہیں، اور جدید بلوچی اور بلوچستان میں جدیداردو شعری روایت کا مضبوط حوالہ، عطا شاد نے بھی اسی شال کوٹ میں دفن ہونے کو ترجیح دی، لیکن خیر بخش مری کی تدفین کئی پہلوؤں سے ان سب پہ بھاری ہے۔ نوے کی دَہائی میں طویل جلاوطنی کے بعد خیر بخش مری جب اپنے قبیلے کے ہزاروں افراد سمیت بلوچستان واپس ہوئے تو سرکار نے انھیں اور ان کے قبیلے کی آبادکاری کے لیے کوئٹہ کے مشرقی کونے میں دامنِ کوہ کے پاس ایک طویل اراضی دے دی، جو مریوں کی آبادکاری کے باعث ’مری آباد‘ کہلائی۔ لیکن پھر جغرافیائی مسائل کے پیش نظر یہ آبادی کوئٹہ کے مغربی کونے کی جانب منتقل ہوئی، اب کے اسے نیو کاہان کا نام دیا گیا(کاہان، مریوں کے آبائی علاقے کوہلو کا ہیڈکوارٹر ہے،نیزمریوں کے دم سے آباد ہونے والا مری آباد اب ہزارہ اکثریتی علاقہ ہے) ۔ یہاں مریوں سمیت دیگر بلوچوں کی مزید آبادکاری بھی ہوئی، موجودہ نیوکاہان کی آبادی تین لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ یہیں شہدا قبرستان کے نام سے ایک کونا آباد ہے، جہاں بلوچستان میں گذشتہ ایک دَہائی سے جاری بغاوت کے دوران شہید ہونے والوں کی تدفین کی گئی ہے۔ نواب مری نے اپنی تدفین کے لیے اپنے انھی فکری ساتھیوں کا انتخاب کیا۔یہ انتخاب اس خاموش رہنما کا ایک ’خاموش فیصلہ‘ ہے، جس کے اثرات بلوچستان کی جغرافیائی تقسیم پہ دیرپا ہوں گے۔ آخری اور اہم نقطہ یہ کہ خیر بخش مری عمر بھر جس بلوچ وقار کے امین رہے، ان کے بعد بلوچوں میں یہ احساس شدیدتر ہو چکا ہے۔ مستقبل کا بلوچ کوئی بھی مصالحت اپنے وقار کی قیمت پہ قبول نہیں کرے گا۔کسی پہ ذلت آمیز سودے بازی کی نسبت وہ مٹ جانے کو ترجیح دے گا۔سو، مقتدر قوتوں کو اس حقیقت کو قبو ل کرنا ہو گا کہ بلوچ سے بات چیت میں بے توقیری کو نکال دینا ہی بہتر ہے۔بلوچ وقار، اب بلوچ سماج کا ہی نہیں بلکہ اس کے ہر فرد کی شخصیت کا ناگزیر جزبن چکا ہے۔خود کو بلوچ کا نمائندہ کہنے والی کوئی بھی شخصیت یا جماعت جب بھی سیاسی مصالحت کی طرف جائے گی، اسے اس پہلو کو بہرطور سامنے رکھنا ہوگا۔ نیتوں اور اعمال کو جانچنے کا بلوچستان میں اب یہی پیمانہ ہوگا۔ عمر کے آخری حصے میں خیر بخش مری نے ایک غیر منظم سماج میں جو تھوڑی بہت منظم تنظیم کاری کی، اس کا بھی اصل امتحان اب شروع ہو گا۔مرکزی ستون نہ رہنے کی صورت میں ہی باقی ستونوں کے استحکام کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ستون بلوچ سماج کی چھت کو کتنا سنبھال پاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ستون استحکام کا مظاہرہ نہ کریں، تو چھت تو گرتی ہی ہے، لیکن وہی ستون بھی اس کے ملبے تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔