|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2014

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی حکومت شعبہ تعلیم اور صحت پر زیادہ رقوم خرچ کرے گی ۔ تقریباً اگلے مالی سال میں حکومت تعلیم کی ترقی کیلئے 28فیصد زیادہ رقم خرچ کرے گی ۔ یہ پہلی بار ہے کہ حکومت ایک تسلسل کے ساتھ شعبہ تعلیم پر زیادہ اخراجات کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ آزاد ماہرین معاشیات اس کا زبردست خیر مقدم کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی وسائل کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ تعلیم ہے اور وہ بھی معیاری تعلیم ہے اس کے لئے سہولیات زیادہ سے زیادہ پیدا کی جائیں ۔ حالیہ بجٹ میں پانچ ارب روپے کا ایک خصوصی فنڈ قائم کیا گیا ہے اور اس کا مقصد تعلیم کے مید ان میں زیادہ سے زیادہ سہولیات پیدا کرنا ‘ اسکولوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کی حالت زیادہ بہتر بنانا اور طلباء اور اساتذہ کے لئے بھی سہولیات پیدا کرنا ہے ۔ اسکولوں کی مرمت ‘ سائنس اور لیب کی سہولیات اور دوسرے سازو سامان ‘ 32کروڑ روپے سے اسکولوں میں بہتر سہولیات فراہم کرنا ‘ چالیس کروڑ روپے کی فرنیچر خصوصاً ان اسکولوں میں جہاں فرنیچر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ 75کروڑ اسکولوں کی عمارات کی مرمت اور رنگ و روغن کے لئے اور پچاس کروڑ روپے وزیراعلیٰ کے تعلیم فنڈ کے لئے ۔75کروڑ روپے دو سو اسکولوں کا درجہ بلند کرنے کے لئے ‘ مثلاً پرائمری سے مڈل اسکول اور مڈل اسکول سے سیکنڈری اسکول ‘ اس میں 200پرائمری اسکولوں کومڈل اسکولوں کا درجہ دیا جائے گااور 42کروڑ روپے سے پچاس مڈل اسکولوں کو سیکنڈری اسکولوں کا درجہ دیا جائے گا۔ خالد لانگو نے بجٹ تقریر میں یہ کہا کہ حکومت نے ان ترقیاتی اخراجات میں سولہ فیصد اضافہ کیا ہے ۔اس کے علاوہ کوئٹہ شہر کے اندر بلوچستان یونیورسٹی کے دو نئے سب کیمپس تعمیر کیے جائیں گے ایک مری آباد اور دوسرا ہزارہ ٹاؤن میں جہاں پر مقامی طلبہ کی آمد و رفت میں کچھ مشکلات حائل ہوگئی ہیں اور ان میں سے اکثر کو فرقہ پرستوں نے نشانہ بنایا ہوا ہے۔ مقامی ویمن کالج اور بولان میڈیکل کالج ہسپتال میں دہشت گردانہ حملے اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے کوئٹہ شہر میں دو نئے سب کیمپس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت مزید میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں بنا رہی ہے ۔ ان تمام اقدامات کا مقصد پسماندگی کے خلاف اعلان جنگ ہے او رناخواندگی کے خلاف جہاد ہے ۔ ناخواندہ سماج کبھی اور کسی بھی شعبہ میں ترقی نہیں کرسکتا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ معیاری تعلیم کی سہولیات کو لوگوں تک اور دوردراز علاقوں تک پہنچا ئی جائیں۔اس میں اعلیٰ کوالٹی کی زندگی اور ترقی کا راز ہے ۔ ہم نے ان کالموں میں کیڈٹ کالج اور رہائشی کالجوں اور اسکولوں کے نظام کی تعریف کی تھی اور حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رہائشی اسکولوں کی ترقی پر توجہ دے اور دوردراز علاقوں میں رہائشی اسکول اور کالج قائم کیے جائیں تاکہ طلبہ کو کوالٹی تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ اساتذہ بھی ان رہائشی اسکولوں اور کالجوں کے احاطے میں رہیں سوائے مقامی اساتذہ کے ‘ اس سے Drop outکی شرح کم ہوگی بلکہ ختم ہوگی ۔ رہائشی اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا تجربہ بلوچستان میں کامیاب رہا ہے اور اس کے بہت ہی اچھے نتائج سامنے آئے ہیں اور معیاری تعلیم میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ بلوچستان کے علاقے دور دراز ہیں جہاں پر ایک استاد‘ ایک اسکول کا تجربہ ناکام ہوگیا ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ حکومت رہائشی اسکول بنائے جہاں پر طلباء کو مفت اچھی اور معیاری تعلیم دی جائے یہی انسانی وسائل کی ترقی کا بہترین نسخہ ہے اورچائیے کہ حکومت اس پر عمل درآمد کرے ۔