کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ لشکری رئیسانی، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی، نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میر جان محمد بلیدی، طلباء ایکشن کمیٹی کے وائس چیئرمین پرسن صبیحہ بلوچ ودیگر نے کہا ہے کہ ترقی کا عمل روکنے کے لئے طلباء سیاست پر پابندی عائد کرکے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل کر ہمیں آپس کے معاملات میں الجھا کر ارتقاء کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔
طلباء سیاست کو آئینی شکل دی جائے سیاسی جماعتیں قومی امور پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے مسائل کا حل تلاش کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام ”طلباء سیاست اورموجودہ مسائل“کے عنوان سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سیمینار سے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، پاکستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل آصف بلوچ ایڈووکیٹ، نیشنل ڈیموریٹک پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزرشاہ زیب بلوچ نے بھی خطاب کیا اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ انگریز تاج برطانیہ کوبچانے اور اپنی سرزمین کا دفاع مضبوط کرنے کیلئے اپنی کالونیوں کوکم کرکے واپس چلے گئے اور بالشو یک انقلاب کا راستہ روکنے کیلئے ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایاجسے مختلف سازشوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکارکیا گیا ہے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں آزادی سے اپنے فیصلے نہیں کرسکتیں۔
انہوں نے کہا کہ سماج کی ترقی معاشی،معاشرتی،ذہنی،جسمانی ومالی ارتقاء سے ہوتی ہے بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے ہمیں آپس کے معاملات میں الجھا کر ارتقاء کے عمل کو روک کر ملک میں ایک طبقہ نے اپنا تسلط قائم کررکھا ہے ہمیں آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے بلوچستان میں غیر اعلانیہ جنگ کو مذہب، فرقہ واریت، نسلی تعصب کانام دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں ان سیاسی جماعتوں کا راستہ روکا جاتا ہے جن کے ذہنی ارتقاء کاعمل مکمل ہے اور وہ پارلیمنٹ میں جاکر باقائدہ ڈائیلاگ کے ذریعے اپنے مطالبات کو قانونی شکل اور پارلیمنٹ کے ذریعے پالیسیاں تشکیل دینے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو جعلی جمہوری عمل کے ذریعے اقتدارمیں آئے ہیں وہ اس عمل کو کیسے آگے لے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک آمر نے جہادکے نام پر سیاسی عمل روک کر خطے کو جنگ میں دھکیل دیاجس سے میرے خاندان سمیت بہت سے لوگ کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوئے،اس آمر نے یہ صرف اس لئے کیاکہ لوگ روشن فکراوربہترخیالات کے ذریعے سامراجی غلامی سے نکل نہ پائیں، انہوں نے کہا کہ1970کے انتخابات میں تما م جمہوری قوتوں نے بہتراندازمیں انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس سے فرنٹ لائن کو خطرہ محسوس ہوا اور ریاست میں ہونے والی ترقی کا عمل روکنے کے لئے طلباء سیاست پر پابندی لگائی گئی اور آج بھی کسی نہ کسی جگہ سے سیاسی جماعتیں بناکر انہیں برسراقتدار لایا جاتا ہے جو معاشرے کوتنزلی کی جانب لے جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ جب وفاقی وزیر تھے تب یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ بلوچستان کے آئندہ وزیراعلیٰ ہونگے کیونکہ ان کے پاس عوام کی تعمیر وترقی سے متعلق کوئی ایجنڈا نہیں ہے وہ صوبے کی پسماندگی کا خاتمہ کرنے کی بجائے ترقیاتی فنڈز وفاق کو واپس کررہے ہیں ایسے میں حقیقی سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قومی امور پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے ان مسائل کا حل تلاش کریں اور اپنے حقوق سے متعلق قانون سازی کریں۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں طلباء سیاست کو آئینی شکل دی جائے تاکہ دوسری نرسریوں سے نکلنے والے لوگوں کا سیاست میں راستہ روک کر تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلباء آگے آکر معاشرہ کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کیلئے پارلیمنٹ میں جاکراپناکرداراداکریں۔ انہوں نے کہا کہ طلباء سیاست کو آئینی شکل نہ دینے سے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ طلباء وطالبات حقائق سے خود کو باخبر رکھنے کیلئے تاریخ کا مطالعہ کریں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے وسائل سے مالا مال خطہ ہے جس پر دْنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور بالادست طبقے کی کوشش ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاست کو پنپنے نہ دیا جائے تاکہ لوگ اپنے حقوق اور وسائل سے بے خبر رہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم کسمپرسی اور پسماندگی سے دوچار ہیں مگر ناامید نہیں اْنہوں نے کہا کہ ہمارے آبا? اجداد یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد، احمد شاہ ابدالی، میر گل خان نصیر، باچا خان اور دیگر اکابرین کی ایک تاریخ رہی ہے اور وہ اس نظام سے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ٹکرائے باچا خان اور انکے ساتھیوں نے ایک ساتھ6 سو افراد کے جنازے بھی اْٹھائے۔
جلاوطنی کی زندگی گزاری اور اذیتیں برداشت کیں اور انہی اکابرین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اس خطے میں ہم کم سے کم آزاد زندگی گزاررہے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 1971ء اور2008ء میں کسی حد تک شفاف انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں ہمیں کامیابیاں ملیں اور نقصانات بھی اْٹھانا پڑے 1971ء کے انتخابات میں بنگلہ دیش کی اکثریت کو تسلیم نہ کرنے سے ملک دو لخت ہوا تاہم اس انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت نے ملک کو آئین دیا جو ہماری بڑی کامیابی ہے۔
اْنہوں نے کہا کہ2008ء کے انتخابات میں ہمارے اکابرین نے اس ملک کو اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ دیا جس کے نتیجے میں ہم نے لاشیں بھی اْٹھائیں۔اْنہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر ملک میں اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کا راستہ سیاسی جدوجہد سے روکیں گے۔
اْنہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبے اور طلباء سیاست کی تباہی میں کسی نہ کسی حد تک ہمارا اپنا کردار رہا ہے یہاں بغیر کسی حکمت عملی اور ضابطے کے اساتذہ تعینات کئے گئے جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہوا۔اْنہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہم اس سرزمین پر بسنے والے لوگوں کے حقوق حاصل کریں اور طلباء یونین کی بحالی میں کامیاب ہوں۔
نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کہا کہ وقت اورحالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،طلباء کوآج مجموعی طورپرمشکلات کاسامنا ہے،انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست شعوراورآگاہی سے نفرت ہے اور آج سیاسی وغیر سیاسی لوگوں کے درمیان جنگ بھی اسی چیزپرہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرغوث بخش بزنجوکو ون یونٹ مردہ بادکہنے پر چودہ سال تک پابندسلاسل رکھا گیا اورآج وہ ذہنیت طلباء کو یکجاہونے سے روکنے کیلئے تعلیمی اداروں میں قائم ہاسٹلوں پرپابندی اورطلباء کو ملنے والے اسکالرشپ کو ختم کررہی ہے،انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں موجودلوگوں میں اکثریت کاتعلق طلباء سیاست سے رہا ہے اورطلباء سیاست نے اس ملک اورسیاسی جماعتوں کو قیادت مہیا کی ہے۔
ا نہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین کی قیادت میں بلوچستان سے ہونے والی جدوجہد کے نتیجے میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوااورآج ایک مرتبہ پھرہم قوموں کے سیاسی ومعاشی اورآئینی حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ طلباء ایکش کمیٹی کی وائس چیئرپرسن صبیحہ بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلباء سیاست پر خوف طاری ہے ہم معاشرے میں خوف کے ساتھ نہیں بلکہ شعور اور علم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف طبقوں نے سیاست کو مفاد پرستی کا نام دیا مگر طلباء نے اسے محبت اور جدوجہد کی تحریک بنایا۔ یہاں بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ ہراسگی کے واقعات کو طلباء سیاست نے ہی آشکار کیا اْنہوں نے کہا طلباء سیاست معاشرتی حقوق، سیاسی، علمی اور شعوری جدوجہد کی جانب طلباء کو راغب کرتی ہے۔
سیمینار سے پاکستان نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل آصف بلوچ ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں انسان کی ضروریا ت سے زیادہ وسائل کی اہمیت کو مقدم سمجھا جاتا ہے اورنظریہ ضرورت کے تحت لوگوں کو اپنے حقوق کی بات کرنے سے روکاجاتا ہے،انہوں نے کہا کہ طلباء سیاست سے طلباء اپنے آئینی حقوق سے متعلق شعوروآگاہی حاصل اورسیاسی سوچ اوربین الاقوامی سیاست کوسمجھتے ہیں جوخودساختہ مسلط کردہ سیاستدانوں کیلئے خطرے کاباعث ہے اس لئے انہیں شعوری اورسیاسی اعتبارسے منظم اورمتحرک ہونے نہیں دیاجاتاانہوں نے کہاکہ بلوچ اورپشتون کو قومی معاملات پر مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے۔
سیمینارسے پروفیسرمنظوربلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آج تک جمہوریت آئی اورنہ سیاست میں آج تک بلوغت آئی ہے تعلیمی اداروں میں اضافہ ہونے کے باوجودجہالت میں اضافہ ہوا ہے ہماری اقداراورروایات کاجنازہ نکالاجارہا ہے،انہوں نے کہا کہ طلباء کی تربیت کرنا معاشرے کی ذمہ داری ہے مگرآج یہ ذمہ داری کوئی سیاسی جماعت،دانشوراورپڑھا لکھاعلم ودانش والاشخص اپنے سرلینے کوتیار نہیں،انہوں نے کہا کہ نوجوان اپنی شخصیت اورخوابوں کیساتھ زندہ رہنا چاہتا ہے تاہم بلوچستان میں طلباء سیاست پرجتنی پابندیاں آج ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔
نیشنل ڈیموریٹک پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزرشاہ زیب بلوچ نے کہا کہ طلباء وہ طاقت ہے جو معاشرے میں کسی بھی مسئلے کے رخ اورزاویہ تبدیل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں طلباء یونینزکے ذریعے لوگ اپنے معاشرتی اورعالمی حقوق سے روشناس ہوتے ہیں اس لئے ان تنظیموں کو معاشرے میں متحرک نہیں ہونے دیاجاتااوران کا راستہ روکاجاتاہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو نوآبادیاتی طرزپرچلایاجارہا ہے اورایک منظم منصوبے کے تحت ہمیں اپنے حقوق کیلئے جدوجہد اوربات کرنے سے روکاجاتا ہے،انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ طلباء سیاست پر عائدپابندی کے خاتمے کیلئے ایک فعال اورموثرجدوجہد کی ابتداء کریں۔عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک میں طلباء سیاست کوقانونی حیثیت دی گئی ہے انہیں اپنی ذمہ دار اورحقوق کاپتہ ہے۔