کوئٹہ: بلوچستان پیس فورم کے چیئرمین نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ سلیکٹڈحکمرانوں غیروں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سمٹ کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے،صوبے کے حالات کوبدلنے کیلئے بلوچ پشتون قبائل کو کتاب کیساتھ رشتہ جوڑناہوگا،بیرون ممالک میں آبادلوگ کتاب دوست تحریک کا حصہ بن کر اپنے سماج کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں،نظم وضبط اور شعور ی جدوجہد کے ذریعے ہی ہم اپنی سرزمین پر اختیار حاصل کرسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک جدیدعلوم اورٹیکنالوجی پرعبوررکھنے کی وجہ سے دنیاپرحکمرانی کررہے ہیں۔
ان خیالات کااظہارانہوں نے پیر کے روزبلوچستان پیس فورم کی کتاب دوست تحریک بلوچستان کے زیر اہتمام ”امن کاسفرکتابوں کے سنگ“کے عنوان سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پرنسپل جھالاوان لاء کالج عبدالقدوس،پرنسپل نیشنل لاء کالج عمر لطیف،سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد،میر خورشید جمالدینی،آصف بلوچ ایڈووکیٹ، باز محمد شہید فا?نڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے اشفاق بلوچ ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کتابیں شہدائے 8اگست کے نام کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ طلباء شہید وکلاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کتابوں سے استفادہ حاصل کرکے اپنی زندگی صوبے کی ترقی کے لئے وقف کردیں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت درپیش تمام مسائل کا حل علم، دانش اور کتاب دوستی میں مضمر ہے، ضیاء الحق اور مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ فرقہ واریت، لسانیت، گڈ بیڈ طالبان سمیت دیگر طرح کے مسائل ”جن سے پوری سوسائٹی یرغمال بن جاتی ہے“کا ہر دور میں سامنا رہا ہے جس کے خلاف تعلیم یافتہ طبقے یعنی سول سوسائٹی نے آواز بلند کی ہے مگر نتیجہ ہمیشہ صفر رہا ہے۔
ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں یہاں گیس اور بجلی لوگوں کو میسر نہیں ہے پانی خریدتے ہیں اور حتیٰ کہ صاحب استطاعت لوگ اپنی سیکورٹی تک کا بندوبست خود کرتے ہیں، یہ تمام باتیں اپنی جگہ صحیح ہیں کہ ہمارا استحصال کرکے پسماندہ کیا جارہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علم، دانش، دانائی، عظمت، تخلیق اور عظیم مقصد کے لئے کتاب دوستی سے ناطہ جوڑ لیں تاکہ خود اور آنے والی نسل ایک باعزت اور باوقار زندگی گزار سکے۔
نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ اسلحہ مرد کا زیور ہے مگر اسلحہ صرف اور صرف وطن کے دفاع کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے جبکہ یہاں تو ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف پر بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے اپنے مسائل کو تلاش کرکے ان کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ ایک ڈگری حاصل کرنے والا نوکری جبکہ علم حاصل کرنے والا حکمرانی کرتاہے۔
اگر 70کی دہائی کا ذکر کیا جائے تو اس وقت کے حکمران علی گڑھ سمیت دیگر اعلیٰ تعلیم دینے والے اداروں سے فارغ التحصیل تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہم بدترین پسماندگی اور زوال کی طرف جارہے ہیں حکمرانوں کی جعلی ڈگریاں نکل آتی ہیں، زوال سے نکلنے کے لئے علم اور کتاب دوستی کی فکر کو پروان چڑھانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وہ لوگ ہی سماج کی کوالٹی ہیں جو کتاب سے دوستی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زمانہ طالب علمی میں ترکی جانا ہوا تو دیکھا کہ ترکی انتہائی غریب پسماندہ، کرپشن کا شکار اور مفلوج ملک تھا وہاں کی پولیس کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر لوگوں سے پیسے لیتی تھی آج جن مسائل او رمشکلات کا ہمیں سامنا ہے بالکل اسی طرح کی صورتحال کا سامنا اس وقت ترکی کو تھا اس وقت ترکی کو SickMan of Europe(یورپ کی بیماری) کہا جاتا تھا مگر انہوں نے تعلیمی فکر کو پروان چڑھایا اور آج وہ ترکی دنیا کو آنکھیں دکھاتا ہے۔
ہمارے جعلی حکمران طیب اردگان اور ملائشیا کے وزیراعظم کو اپنا آئیڈیل کہتے ہیں مگر جب وہ کانفرنس میں بلاتے ہیں تو یہ غیروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے نہیں جاتے جس کی اہم وجوہات ملک مفلوج، قرض دار اور علم سے دوری ہے۔ ہمیں لوگوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی جہاں لائبریریاں بند ہیں یا کتابیں کم ہیں وہاں لائبریریاں کھول کر کتابیں فراہم کرنا چاہیے۔
بلوچستان پیس فورم دوست احباب سے کتابیں لے کر یونیورسٹیوں، کالجز اور لائبریریوں کو فراہم کررہی ہے۔ آج جھالاوان لاء کالج خضدار کو جو کتابیں فراہم کررہے ہیں کتابیں فراہم کرنے میں نیشنل پریس کلب کے بلال ڈار اور چوہدری اشرف گجر ایڈووکیٹ کا خصوصی تعاون شامل ہے۔ چوہدری اشرف گجر نے ڈسٹرکٹ بار اسلام آباد کے وکلاء کے ساتھ ایک نشست کرائی اور وہاں کے وکلاء نے ایک مہم چلا کر یہ کتابیں فراہم کیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سب سے پہلے اپنے گھر میں رکھی گئیں کتابوں کو بیوٹمز، سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی سمیت دیگر لائبریریوں کو عطیہ کیا۔ یہ سلسلہ ہم نے بین الاقوامی سطح پر پھیلایا گزشتہ دنوں قطر میں محمد عارف رئیسانی اور اس کے بھائی نے چند سو کتابیں جمع کرکے بھیجی ہیں جو کسی ادارے یا لائبریری کو فراہم کریں گے۔
انہوں نے ملک سے باہر بلوچ اور پشتون اور دیگر اقوام کے کتاب دوست بھائیوں سے اپیل کی کہ وہ کتابیں جمع کرکے بھیجیں تاکہ ان سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے نوجوان استفادہ حاصل کرکے باعزت اور باوقار زندگی گزار کر اپنی زندگیاں صوبے کی خدمت کے لئے وقف کردیں دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ کتاب اور کتاب دوستی مہذب معاشرے کی ضامن ہے جو ممالک آج دنیا بھر پر حکمرانی کررہے ہیں چاہے وہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہو یا تعلیم کے یہ سب کتاب دوستی کی وجہ سے ہے۔
پیس بلوچستان فورم بلوچستان میں تعلیم کی ترقی، صحت کے شعبے اور کھیلوں کے فروغ کے لئے بہترین کردار ادا کررہا ہے۔ حاجی لشکری رئیسانی خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے قلم اور کتاب کو نہ صرف اپنا شیوہ بنایا ہے بلکہ نوجوانوں کو بھی اس طرف راغب کررہے ہیں۔
ڈاکٹر لعل کاکڑ کا کہنا تھا کہ شہید باز محمد کاکڑ فا?نڈیشن چند دنوں میں بلوچستان میں پہلی ڈیجیٹل لائبریری کا افتتاح کررہی ہے جو کوئٹہ کے علاقے شہباز ٹاؤن میں واقع ہے اس حوالے سے مستقبل میں ہمیں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افرداکے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر حاجی لشکری رئیسانی نے جھالاوان لاء کالج خضدار کے پرنسپل و دیگر کو کتابوں کاتحفہ دیا۔