|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2014

دنیا کا دوسرا بڑا آلودہ شہر کوئٹہ ہے ۔ یہاں گندگی جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے اس کا سیوریج اور کچرہ اٹھانے کا نظام یکسرتباہ ہوچکا ہے ۔آئے دن گٹر ابلتے رہتے ہیں اور پورے شہر میں آلودگی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ سول سیکرٹریٹ کے اطراف میں آلودہ اور ابلتے گٹر کا پانی آئے دن موجود ہوتا ہے ۔ دہائیوں سے امداد چوک اور سیکرٹریٹ چوک آلودہ اور گٹر کے پانی سے اکثر و بیشتر بھرا رہتا ہے ۔ اس سے سڑک تباہ ہوتی اور ٹریفک انتہائی سست رفتاری سے چلتی ہے ۔ میونسپل اہلکاروں کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ایک اہلکار روانہ کرے اور بند گٹر کو صاف کرے اور گٹر کے پانی کو سیوریج نظام کے تحت بہنے دے۔ یہی کام میونسپل حکام نے کبھی بھی نہیں کیا ۔ بلکہ ہمیشہ لا تعلقی کااظہار اس طرح سے کیا کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر شہر کے وسط میں اور سیکرٹریٹ چوک پر گٹر کا پانی کھڑا ہے تو ان کی بلا سے ۔ان کو کوئی پرواہ نہیں وہ کسی کے سامنے جواب دہ بھی نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے کوئٹہ دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر کا درجہ حاصل کرچکا ہے ۔ لوگوں نے شاذونادر ہی میونسپل کے کارکنوں کو سڑکیں اور گلیاں صاف کرتے دیکھا ہے یا کچرہ اٹھاتے دیکھا ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں میونسپل کے کارکن ڈیوٹی سے غائب رہتے اور تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔ پرائیویٹ گھروں میں کام کرکے دو گنی تنخواہ لیتے ہیں ۔ صرف اپنے افسر کو خوش رکھنا ضروری ہے ۔ حال ہی میں صفائی اور ستھرائی کے لئے ایک پرائیویٹ کمپنی کو کچرہ اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک ہزاروں ٹن کچرہ وہ شہر کے مختلف علاقوں سے اٹھا چکے ہیں وہ ہیوی مشینری استعمال کررہے ہیں ۔ ٹھیکے کی تفصیلات سے لوگوں کو ابھی تک آگاہ نہیں کیا گیا ۔ لوگوں کو اس معاملے میں ضروری تفصیلات فراہم کی جائیں تاکہ عوام اس کمپنی کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھے کہ آیا وہ عوام کی توقعات پر پوری اترتی ہے یا ان کے لیے صرف حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنا کافی ہے ۔ بہر حال یہ پروجیکٹ حکومت وقت کا ایک احسن اقدام ہے کہ کوئٹہ میں صفائی کے نظام کو بہتر بنایا جائے ۔ ساتھ ہی کھلی ڈرین لائنوں میں توسیع کی جائے اور بعض علاقوں میں ان کو ڈھانک دیا جائے تاکہ کچرہ کی وجہ سے یہ لائن بند نہ ہو ۔ ابھی تک یہ کام مکمل نہیں ہوا ہے مکمل ہونے کے بعد یہ معلوم ہوسکے گا کہ یہ نظام کامیاب رہا ہے یا نہیں ۔ بہر حال کوئٹہ میں صفائی اور ستھرائی کی آگاہی کے لئے ایک بھرپور مہم چلائی جائے جس میں دکانداروں اورریڑھی والوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ کچرہ سیوریج لائن کے اندر نہ ڈالیں ۔ ایسا کرنے والوں پرنہ صرف زبردست جرمانہ عائد کیا جائے بلکہ ان کو جیل تک کی سزائیں دی جائیں۔ جہاں جہاں سے یہ سیوریج لائن گزرتی ہے وہاں کے تمام دکانداروں اورریڑھی والوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور جب وہ قانون کی خلاف ورزی کریں تو قانون حرکت میں آجائے اور ان کو سزائیں دیں ۔ کوئٹہ میں بہترین صفائی کیلئے ضروری ہے کہ شہر کو مختلف زونز میں تقسیم کیاجائے اور اس کا ٹھیکہ ایک شخص یا کمپنی کو نہیں بلکہ کئی لوگوں کو دیاجائے تاکہ ان میں مقابلے کا رجحان ہو ۔ ہزاروں کی تعداد میں میونسپل کارکنوں کو ان کمپنیوں کے حوالہ کیاجائے اور وہی ان کو تنخواہیں دیں ۔وہ سرکاری ملازم کے بجائے نجی کمپنی کے ملازم ہوں کیونکہ کئی دہائیوں سے انہوں نے عوام الناس کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنے افسران سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا ہے ۔ اسی قسم کا نظام تہران اور ایران کے بڑے شہروں میں رائج ہے جہاں کے ہائی وے ہمارے گھروں سے زیادہ صاف ستھرے ہیں یہ نجی کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ کوئٹہ کو شیشے کی طرح صاف شہربنایاجائے ۔