کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے حلقوں میں حکومتی مداخلت ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کیے جانے کیخلاف اپوزیشن اراکین کا احتجاج ایوان سے واک آوٹ کرگئے کورم ٹوٹ جانے سے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا۔
جمعرات کے روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائدحزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں عوام نے منتخب کرکے ایوان میں بھیجا ہے ہمارا حق ہے کہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات اٹھائیں اور وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں فنڈز فراہم کریں،انہوں نے کہا کہ نواں کلی بائی پاس کی منظوری پر وزیراعلیٰ کا مشکور ہوں وزیراعلیٰ نے میرے حلقے میں میری تجویز پر30بیڈ کا ہسپتال دیا تاہم پی ایس ڈی پی میں اس منصوبے کو حکومت میں شامل رکن اسمبلی نے باچاخان ہسپتال کا نام دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ باچاخان کی میں عزت کرتا ہوں تاہم حکومتی رکن کا یہ اقدام درست نہیں اس سلسلے میں میں نے متعلقہ رکن اوروزیراعلیٰ سے بھی رابطہ کیا بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے جس میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کسی فرد کے نام پر نہ ہوں اس فیصلے سے ہم اس مشکل سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی اے پی کے سینیٹر جو گزشتہ حکومت میں اس حلقے سے منتخب ہوئے تھے ہم نے کبھی گزشتہ حکومت میں ان کے لئے رکاوٹیں پیدا نہیں کیں جہاں ضرورت ہوئی ہم نے ان کا ساتھ دیا تاہم وہ بائی پاس منصوبے کو اپنے نام سے منسوب کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ سینیٹر وفاق سے حلقے کے لئے فنڈ لائیں میں ریڈ کارپٹ بچھا کر استقبال کروں گا۔انہوں نے کہا کہ کلی کوتوال میں سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بھی صوبائی وزیر مداخلت کررہے ہیں اور انہوں نے متعلقہ محکمے کے ایکسیئن اور سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ ٹھیکہ اس کے بندے کو ملنا چاہئے جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ آج ہمیں پتہ چلا کہ وزیراعلیٰ ٹریڑری بینچز سے زیادہ اپوزیشن پر مہربان ہیں اپوزیشن لیڈر کو باچاخان کے نام پر اعتراض ہے انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی اراکین ان کے حلقوں میں اجتماعی منصوبے شامل کرائیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ انہوں نے کہا کہ باچاخان صرف پشتونوں کے نہیں بلکہ تمام قوموں کے رہبر ہیں اور جس کا اعتراف جمعیت کے اکابرین نے بھی کیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے 20سال کے پی ایس ڈی پی کی بات کی اور اس کے بعد موجودہ پی ایس ڈی پی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انصاف اور برابری کی بنیاد پر بلاتفریق تمام حلقوں میں ترقیاتی کام کرائے جارہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض حلقوں کو بعد زیادہ نوازا جارہا ہے جبکہ اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے میں صرف اپنے حلقے سریاب کی بات کروں گا۔
کوئٹہ پیکیج کا آغاز 2017ء میں ہوا اس وقت اس پیکیج کے لئے 2.8بلین روپے رکھے گئے مگر موجودہ پی ایس ڈی پی میں اس کو کم کرکے صرف 1.8بلین کرلیا گیا ہے سریاب کی آبادی 10لاکھ نفوس پر مشتمل ہے موجودہ حکومت کوئٹہ پیکیج کے فنڈز بڑھانے کی بجائے کم کردئیے ہیں دوسری جانب غیر منتخب لوگوں جن کا حلقے سے کوئی تعلق بھی نہیں وہ سریاب میں منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں غیر منتخب افراد کے ناموں کے بورڈ گلی کوچوں پر لگے ہوئے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ وزیراعلیٰ کے حلقے میں 10ارب روپے کی لاگت سے کام ہورہا ہے کیا یہی انصاف اور گڈ گورننس ہے کچھ حلقوں میں 2ارب روپے اور کچھ میں اس سے بھی کم دئیے جارہے ہیں اور وزیراعلیٰ گڈ گورننس کی بات کرتے ہیں تو اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہئے انہوں نے وڈھ میں ایک سڑک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ پی ایس ڈی پی میں شامل تھا جسے بدنیتی کی بنیاد پر نکالا جارہا ہے تمام جاری منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کیے جانے کے باوجود ڈگری کالج وڈھ کے لئے کیوں فنڈز جاری نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی باتوں پر عمل میں تضاد ہے فنڈز کی تقسیم میں انصاف نہیں کیا جارہا ہے اس موقع پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔دونوں جانب سے ارکان کے بیک وقت بولنے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی ڈپٹی اسپیکر ارکان کو بار بار خاموش رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔
اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے اپنے حلقوں میں مداخلت اور ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کیے جانے پر ایوان سے واک آوٹ کیا جبکہ بی این پی کے میر اکبر مینگل نے کورم کی نشاندہی کی کورم پورا نہ ہونے پر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔