|

وقتِ اشاعت :   July 28 – 2014

عام طورپر یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ اسلام آباد کو فوج حوالے کرنے کا مقصد عمران خان کی 14اگست کی مارچ کو قابو میں رکھنا اور طاہر القادری کی جانب سے اسلام آباد میں انقلاب برپا کرنے کو روکنا ہے ۔ تاہم حکومتی ذرائع اس کی تردید کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد اسلام آباد میں ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے سیکورٹی کے حالات کو زیادہ بہتر بنانا ہے ۔ وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ ہم یکم اگست سے 90دنوں کیلئے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کررہے ہیں، اس دوران فوج سول انتظامیہ کی مدد کرے گی ۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے ابھی تک جلسہ کرنے کی درخواست نہیں دی ہے ۔ اس جواب سے یہ تاثر دیا گیا کہ فوج کی اسلام باد طلبی کا تعلق عمران خان کی متوقع مارچ سے نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی بڑے مارچ کو روکنے اور اس کو قابو میں رکھنے کیلئے پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کا فی ہیں ۔ اس میں فوج کی کارروائی کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ تاہم فوج سول انتظامیہ کی امداد کیلئے موجود رہے گی ۔ فوج کی طلبی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ آرٹیکل 245کے تحت انسانی حقوق معطل ہوجاتے ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے ۔ جہاں فوج کو بلایا جاتا ہے وہاں پہلے بنیادی انسانی حقوق معطل کیے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ کارروائی عمران خان کے مارچ کو روکنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت مارچ سے زیادہ ہے ۔ وزیر اطلاعات پرویزرشید نے تفصیل کے ساتھ ان باتوں کا جواب دیا ہے کہ فوج کی سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلبی کا تعلق عمران خان اور طاہر القادری کے انقلاب سے قطعاً نہیں ہے ۔ بلکہ یہ معمول کی سیکورٹی کارروائی ہے ۔ وفاقی دارالحکومت محفوظ نہیں ہوگا تو اس سے بہت سے معاملات ابھریں گے۔ خصوصاً ملک کے اندر اور ملک کے چاروں طرف سیکورٹی صورت حال کے پیش نظر یہ قدم حکومت نے اٹھایا ہوگا۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ دنیا بھر کے پچیس خفیہ ادارے پاکستان کے اندر ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ یہ باتیں سیکورٹی افسران نے اپنے پریس بریفنگ میں سالوں پہلے کہیں تھیں ۔ جب پاکستان کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں دوسرے ملکوں کے خفیہ ادارے ملوث ہوں تو اسلام آباد میں فوج کی طلبی کو معمول کا ایکشن سمجھاجانا چائیے ۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب وزیرستان آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے اور حکومت کا منصوبہ یہ ہے کہ جہاں کہیں دہشت گردی کے ٹھکانے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں ہیں ان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ رائے ونڈ کا آپریشن اس کی ایک مثال ہے ۔ لشکر جھنگوی کے رہبر اسحاق کی گرفتاری اس کی دوسری مثال ہے ہم یہ امید کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں فوج کی طلبی سے عوام الناس کے آئینی اور بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھیں گے۔