اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نےسراج الحق سے دس حلقوں میں ری پولنگ کرانے کا کہا ہے، ہم ان کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔
ہفتے کو قومی سلامتی کانفرنس کے آغاز سے قبل قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم کسی کی بھی شکایات سننے کو تیار ہیں، ‘عمران خان مطالبات پر بات کریں، ہم خوش آمدید کہیں گے’۔
وزیراعظم نے کہا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نےسراج الحق سے دس حلقوں میں ری پولنگ کرانے کا کہا ہے، ہم ان کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ ‘جمہوریت میں مذاکرات سے ہی راستے نکلتے ہیں’۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری نے سیکیورٹی کانفرنس پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘کانفرنس میں سیاست پر بات حیران کن ہے’۔
ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق شیریں مزاری نے دس حلقوں میں گنتی کی بات کو عمران خان سے منسوب کرنے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنےمطالبات 14 اگست کےدھرنےمیں پیش کریں گے۔
قومی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ایک طرف ہم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب میں مصروف ہیں، تو دوسری جانب سیاسی بحران بھی جاری ہے، ایسے حالات میں پاکستان سیاسی بھونچال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں نے اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔
پہلے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا گیا، پھر فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ قومی اتفاق رائے سے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب سے امن کی امید پیدا ہوئی ہے اورامن کے ذریعے ہی ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قانون کو بہت بری طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی تھی۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی انقلاب کا ایجنڈا لانے والے یہ بتائیں کہ وہ ملک میں کس طرح کا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک فسادات پر مبنی انقلاب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزایراعظم کا کہنا تھا کہ ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار رہا ہے اور کوئی بھی ملک اس قسم کی سازشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اور ہم لانگ مارچ اور انقلاب کی باتیں کرنے والوں کو ملکی ترقی میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک نئی شروعات کی ہے، جس کے تحت وفاق ہر صوبے کے مینڈیٹ کو تسلیم کر تے ہوئے ہر ممکن طور پر اس کی مدد کررہا ہے۔
ہر پارٹی کو لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا چاہیٔے اوراسی طریقے سے ترقی ممکن ہے۔
جمہوریت کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک حکومت اچھے انداز سے رخصت ہوئی اور دوسری حکومت نے اقتدار سنبھالا، اس سلسلے میں اپوزیشن نے بھی اہم کردار ادا کیا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیٔے۔
پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان اور انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان مشکلات کا شکار ہے اور ہمیں ہی اسے مشکلات سے نکالنا ہوگا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت آج بروزہفتہ قومی سلامتی کانفرنس کا اجلاس ہو رہا ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے اس غیر معمولی اجلاس میں بری فوج کے سربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی ، چاروں وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی لیڈر شرکت کریں گے۔
اجلاس میں ضرب عضب کے حوالے سے تمام پارلیمنٹیرینز کو بریفنگ دی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ اس آپریشن میں کیا ہونے جارہا ہے۔
آپریشن ضرب عضب میں ممکنہ توسیع کے حوالے سے بھی تمام سیاستدانوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
چونکہ اس کانفرنس میں پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ فوجی قیادت بھی شامل ہوگی تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس میں ضرب عضب پر بریفنگ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے سیکیورٹی کی صورتحال کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔
پاکستان اس وقت حالت جنگ کی سی صورتحال سے دوچار ہے اور فوج ایک اہم آپریشن میں مصروف ہے، لہٰذا اس بات کا امکان ہے کہ کانفرنس میں سیاسی قائدین کو قائل کیا جائے گا کہ تمام سیاسی جماتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوں اور ایک قومی اتفاق رائے نظر آئے تاکہ فوج سکون کے ساتھ اپنے آپریشن کو مکمل کر سکے۔