اسلام آباد : وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کا تین رکنی کمیشن بنایا جائے گا۔
منگل کے روز وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں انہوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دیں۔
نواز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز قوم کو جشن آزادی کی پیشگی مبارکباد سے کیا اور کہا کہ آج ملک ترقی اور استحکام کی جانب گامز ن ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے قوم کو ایسے موقع پر اعتماد میں لیا جا رہا ہے جب ان کی حکومت کے خلاف 14اگست کو پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک(پی اے تحریک) ‘آزادی’ اور ‘انقلاب’ مارچ کرنے جا رہی ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات کی ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے ساتھ ساتھ عالمی مبصرین نے نگرانی کی تھی اور کسی ایک نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے نہیں بتایا جبکہ ان الیکشنز کو ملکی تاریخ میں شفاف ترین قرار دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک انتخابی اصلاحات کا معاملہ ہے یہ ہمارے منشور کا حسہ ہے، اسپیکر قومی اسمبلی کو ان اصلاحات کے لیے کمیٹی بنانے کا مشورہ دیا تھا جس پر انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے اورکان پر مشتمل 33رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے امید ہے یہ کمیٹی کم سے کم وقت میں اپنا کام پورا کرے گی، انہیں انتخابی اصلاحات کی روشنی میں 2018 کے انتخابات ہوں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ ہم سب کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، تمام اصلاحات کے راستے پارلیمنٹ کے ذریے ہی ہوں گی، پارلیمان ملک کے 18 کروڑ عوام کی نمائندہ ہے،اس پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوں گے، بادشاہی اور حاکمیت اللہ کی ہے جو کہ آئین میں بھی تحریر ہے، یہ پارلینٹ اسی بادشاہی کی نمائندگی کرتی ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ ملک میں بادشاہت نہیں ہے، اس سے ہم نے 68 برس قبل نجات حاصل کر لی تھی۔
وزیر اعظم نے قوم کو بتایا کہ وہ تمام معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس حوالے ایسی کسی بھی کوشش کو خوش آمدید کہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنا آئین اور جمہور رکھنے کی ریاست ہے اور ملکی آئین اور جمہوریت کا تحفظ کیا جائے گا۔
نواز شریف نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون موجود ہے ہم پاکستان کے آئینی جمہوری تشخص سے کھیلنے نہیں دیں گے، کسی کو انارکی پھیلانے اور انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کسی کو جھتہ بندی کے ذریعے ریاستی اعمال کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کھلے عام قتل و غارت گری کا درس دے، کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کی گردنیں کاٹنے پر اکسائے، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی یہ قوم کسی نئے عنوان سے فتنہ وفساد کی اجازت نہیں دے گی، کسی فسادی ٹولے کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ توانائی، انفراسٹرکچر اور قومی خوشحالی و ترقی کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں کو کھنڈر بنا دے، مٹھی بھر افراد کو کروڑوں عوام کا مینڈیٹ یرغمال بنانے نہیں دیں گے۔
وزیر اعظم نے ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا کہ میڈیا نے جمہوریت کی سربلندی، اظہار رائے کی آزادی اور عدلیہ کی نبحالی کے لیے تاریخ ساز کردار ادا کیا، مقدس میشن کے لیے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، میڈیا موجودہ سیاسی ہل چل کے حوالے سے اپنے کردار کا ضرور جائزہ لے کہ کچھ عناصر اس آزادی کو اپنے پرتشدد اور غیر آئینی مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کر رہے، امید ہے میڈیا حقیقی معانوں میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک خاص جماعت کی جانب سے دھاندلی کا الزامات سنتا آ رہا ہوں اب ان بے بنیاد الزامات کی وجہ سے بے یقینی کی فضا قائم کی جا رپہی ہے،ہماری حکومت کے پاس ملک کی ترقی کا ایک مکمل ایجنڈا ہے۔
نوازشریف نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 2013 کے انتخابات کے بارے میں الزامات کی آزادنہ اور شفاف تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کا ایک کمیشن بنایا جائے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے حکومت کی درخواست ہے کہ وہ عدالت عظمی کے تین جج صاحبان پر مشتمل کمیشن تشکیل دیں جو انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے۔
وزیر اعظم نے آخرمیں پوری قوم سے سوال کیا کہ اس اقدام کے بعد کیا کسی احتجاجی تحریک کی گنجائش ہے، اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
یاد رہے کہ حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے بعض ممبران کا خیال ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی جماعتوں کو ملک کی طاقتور فوج کے بعض عناصر بالخصوص سابق صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دوستوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔